بیویوں سے عدالت کا مفہوم
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ۳
اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں دو. تین. چار ان سے نکاح کرلو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کرسکنے کا خطرہ ہے تو صرف ایک... یا جو کنیزیں تمہارے ہاتھ کی ملکیت ہیں, یہ بات انصاف سے تجاوز نہ کرنے سے قریب تر ہے.
اس سے قبل کہ ہم اسلام میں بیویوں کی تعداد کے فلسفہ پر بات کریں ضروری ہے کہ اس امر پر بحث کی جائے کہ بیویوں سے عدالت ، کا کیا مفہوم ہے کیونکہ اسے بیویوں کی تعداد کے سلسلے میں ایک شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
کیا یہ عدالت امور زندگی سے مربوط ہے ، مثلا ً ہم بستری ، وسائل زندگی کی فراہمی ، سہولت اور آسائش و آرام مہیا کرنا یا اس سے مراد حریم دل اور جذبات انسانی کی عدالت بھی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ محبت و لفت کے معاملہ میں عدالت کرنا قدرت انسانی سے خارج معاملہ ہے ۔کون ایسا شخص ہے جو جذبہ محبت پر ہر لحاظ سے دسترس رکھے جب کہ اس کے عوامل اس کی اپنی ذات سے باہر ہیں ۔ اس بان پر خدا تعالیٰ نے اس بارے میں عدالت کو واجب قرار نہیں دیا ۔ اللہ تعالیٰ اسی سورہ نساء کی آیہ۱۲۹ میںفرماتا ہے :
و لن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم
تم جس قدر بھی کوشش کرو اپنی بیویوں کے درمیان (قلبی میلانات کے لحاظ سے ) عدالت و مساوات بر قرار نہیں رکھ سکتے ۔
لہذا اندرونی محبت جب تک عملی پہلووٴں کی بنا پر بعض بیویوں کی ترجیح کا نہ بنے ممنوع نہیں ہے ۔ مرد پر جو ذمہ داری ہے وہ عملی اور خارجی پہلووٴں کے بارے میں عدالت سے متعلق ہے ۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ زیر بحث آیت ۔ وان خفتم الاتعدلوا فواحدة اور آیت و لن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم کو آپس میں ملا کر اور منسلک قرار دے کر یہ نتیجہ نکالیں کہ تعداد ازدواج اسلام میں مطلقا ً ممنوع ہے ۔وہ بہت ہی بڑے اشتباہ کا شکار ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ایک آیت میں عدالت کو اس سلسلہ میں شرط قرار دیا گیا ہے اور دوسری میں اس سلسلہ میں مردوں کے لئے عدالت کرنا محال قرار دیا گیا ہے اس لئے ایک سے زیادہ شادی ممنوع ہے اور یہی ان کا اشتباہ ہے ۔ کیونکہ جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے کہ وہ عدالت جو انسان کے بس میں نہیں ہے وہ قلبی میلانات سے متعلق ہے اور یہ تعداد ازواج کی شرائط میں شامل نہیں اور جو عدالت شراےط میں سے ہے وہ عملی پہلووٴں سے متعلق ہے ۔ اس کی شاہد سورہ نساء کی آیت ۱۲۹ ہے جس میں اشارہ ہوتا ہے :
فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقة
اب جب کہ تم محبت کے سلسلہ میں اپنی بیویوں سے مکمل مساوات نہیں کر سکتے تو کم از کم سب میلان ایک ہی طرف نہ رکھو کہ کہیں دوسری کو معلق بنا کر ہی رکھ دو ۔
خلا صہ یہ کہ ان لوگوں نے آیت کے کچھ حصہ کو تو سامنے رکھا ہے اور کچھ کو فراموش کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تعداد ازدواج کے ضمن میںایسے اشتباہ کا شکار ہو گئے ہیں جو ہر محقق کے لئے باعث تعجب ہے ۔
علاوہ از یں فقہ اسلامی اور اس کے مختلف منابع و مصادر کے لحاظ سے اہل تشیع اور اہل سنت تعدد ازواج اور اس کی شرائط کے بارے میں کوئی اختلاف و نزاع نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا شمار فقہ اسلامی کی ضروریات اور بدیہات میں ہوتا ہے ۔ اب ہم اس اسلامی حکم کی حکمت و فلسفے کی طرف لوٹتے ہیں ۔