شان نزول
وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا ۲
اور یتیموں کو ان کا مال دے دو اور ان کے مال کو اپنے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جاؤ کہ یہ گناہ کبیرہ ہے.
۳۔ وَ إِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تُقْسِطُوا فِی الْیَتامی فَانْکِحُوا ما طابَ لَکُمْ مِنَ النِّساء ِ مَثْنی وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَةً اٴَوْ ما مَلَکَتْ اٴَیْمانُکُمْ ذلِکَ اٴَدْنی اٴَلاَّ تَعُولُوا۔
ترجمہ
۳۔ اور اگر تم کو اس بات کا ڈر ہو ( کہ یتیم لڑکیوں سے شادی کی صورت میں ) ان سے انصاف نہ کر سکو گے تو ( ان سے شادی کرنے سے صرف نظر کرلو اور ) اور دوسری پاک عورتوں سے نکاح کرو، دو یا تین یا چار بیویاں اور اگر تم کو ڈر ہو ( کہ متعدد بیویوں کے بارے میں ) عدل ملحوظ نہ رکھ سکو گے تو پھ رایک ہی بیوی پر قناعت کرو اور یا جن عورتوں کے تم مالک ہو ان سے استفادہ کرو ۔ یہ طریقہ بہتر طور پر ظلم و ستم سے محفوظ رکھتا ہے ۔
شان نزول
اس آیت کے بارے میں ایک خاص شان نزول منقول ہے اور وہ یہ کہ قبل از اسلام اہل حجاز کفالت و سر پرستی کے لئے یتیم بچیوں کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور پھر ان سے شادی کرکے ان کے مال کو اپنی ملکیت بنا لیتے تھے کیونکہ سب کچھ انہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ ان کا حق مہر بھی معمول سے کم مقرر کرتے تھے ۔ اور اگر ان سے معمولی سی تکلیف بھی پیدا ہوتی تو آسانی انہیں چھوڑ دیتے اور وہ اس بات پر تیار نہ ہوتے کہ ایک عام بیوی کی حیثیت سے ہی ان سے تعلق باقی رکھیں ۔
ان حالات میں مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں یتیموں کی سر پرستی کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ اگر وہ یتیم لڑکیوں سے شادی کریں تو ان کے بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر ان سے شادی نہ کریں اور دوسری عورتوں میں سے شادی کے لئے کسی کو منتخب کریں ۔
وَ إِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تُقْسِطُوا فِی الْیَتامی فَانْکِحُوا
گذشتہ آیت میں یتیموں کے مال کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے ۔ اب اس آیت میں ان کے ایک اور حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ : اگر تمہیں خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں سے شادی کے وقت تم حقوق زوجیت اور ان کے مال کے بارے میں عدل و انصاف نہ کر سکو گے تو ان سے شادی نہ کرو اور دوسری عورتوں میں سے انتخاب کرو ۔
جو کچھ کہا جا چکا ہے اس پر نظر رکھتے ہوئے آیت کی تفسیر مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔ اس سے اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ آیت کے شروع میں یتیموں کا ذکر ہے اور اس کے آخری حصہ میں ازواج کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور یہ دونوں ظاہرا ًایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت کے ذیل میں شادی بیاہ کا تذکرہ ہے البتہ آیت کی ابتداء میں کہا گیا ہے کہ اگر یتیموں سے شادی کے سلسلہ میں عدل و انصاف سے کام نہیں لے سکتے تو پھر کیا ہی اچھا ہے اس سے صرف نظر کر لو اورشادی کے لئے ان یتیم لڑکیوں کی بجائے دوسری عورتوں میں سے کسی کو منتخب کر و ۔
مفسرین نے اگر چہ اس سلسلہ میں بہت سی مختلف باتیں کی ہیں لیکن جو کچھ خود آیت سے سمجھ میں آتا ہے وہ وہی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں یعنی آیت یتیموں کے سر پرستوں سے مخاطب ہے جنہیں گذشتہ آیت میں یتیموں کے مال کی حفاظت کے بارے میں مختلف احکام دئے جا چکے ہیں اور اس آیت میں ان سے یتیموں سے شادی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے کہ جیسے انہیں یتیموں کے اموال میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے اسی طرح یتیم لڑکیوں سے شادی کی صورت میں انتہائی توجہ سے ان کے حقوق کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے ورنہ ان سے شادی نہیں کرنا چاہیے اور دوسری عورتوں کو منتخب کرنا چاہیے۔
اس آیت کی تفسیر کے بارے میں دیگر شواہد کے علاوہ اس سورہ کی آیت ۱۲۷ بھی ہے جس میں صراحت سے یتیم لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے عدل کو ملحوظ خاطر رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کی وضا حت اسی کے ضمن میں آئے گی ۔ اس سلسلہ میں مذکورہ روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ ۱
رہی وہ روایت جو امیر المومنین حضرت علی (ع) کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ اس آیت کے اول و آخر کے در میان قرآن کافی مقدار میں تھا جو حذف ہو گیا ہے ۔ تو اس سلسلہ میں واضح رہے کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے کسی بھی طرح معتبر نہیں ہے ۔
ایسی احادیث جو قرآن کی تحریف یا اس کے بعض حصوں کے خرد برد ہو جانے کے بارے میںہیں در اصل قرآن کا اعتبار گنوانے کے لئے اسلام دشمنوں اور منافقوں کی طرف سے گھڑی گئی ہیں یا بعض افراد جو آیت کے آغاز و انجام کو نہیں سمجھ سکے انہوں نے فرض کر لیا ہے کہ بیچ میں سے کچھ حذف یا ضایع ہو گیا اور آہستہ آہستہ ان کی یہ مفروضہ روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ آیت کے جملے ایک دوسرے سے مکمل ربط رکھتے ہیں ۔
مثنیٰ و ثلاث و رباع
لغت میں مثنی کا معنی ہے دو دو ۔ ثلاث کا تین تین اور رباع کا چار چار ۔ آیت میں روئے سخن چونکہ تمام مسلمانوں کی طرف ہے اس لئے اس کا معنی یوں ہوگا:یتیم لڑکیوں پر ظلم و ستم سے بچنے کے لئے تم ان سے شادی کرنے سے اجتناب کرو اور ان کی بجائے ایسی عورتوں سے شادی کرو جن کی معاشرتی اور خاندانی حیثیت ایسی ہو جو تمہیں ان پر ظلم کرنے کی اجازت نہ دے اور تم ان میہں سے دو ، تین یا چار عورتوں سے شادی کر سکتے ہو ۔ البتہ مخاطب چونکہ تمام مسلمان ہیں اس لئے دو دو تین تین یا چار چار کہا گیا ہے ورنہ اس میں شک نہیں کہ زیدہ سے زیدہ بیویوں کی تعداد (وہ بھی خاص شرائط کی موجودگی میں ) چار ہے ۔ اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا جملہ میں واو در اصل ”او “ ( یا ) کے معنی میں ہے اور اس کا مقصد یہ نہیں کہ دو کے بعد مزید تین اور تین کے بعد مزید چار کیونکہ اس طرح تو نو بن جاتی ہیں اور اگر مقصود یہی ہوتا تو صراحت سے نو کہا جاتا نہ کہ اس طرح سے الگ الگ اور پیچیدہ طریقہ پر ہوتا۔ علاوہ از ایں فقہ اسلامی میں یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے کہ چار سے زیادہ بیویاں کرنا مطلقا ً ممنوع ہے ۔
بہر حال مندرجہ بالا آیت تعداد ازدواج کے لئے صریح دلیل ہے البتہ ان شرائط کے ساتھ جن کی طرف جلد اشارہ کیا جائے گا۔
فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تَعْدِلُوا فَواحِدَةً
اس کے بعد فورا کہا گیاہے کہ یہ اجازت مکمل عدالت کو ملحوظ رکھنے سے مشروط ہے اور اگر عدالت نہیں کر سکتے اسی ایک بیوی پر اکتفاء کرو تاکہ دوسروں پر ظلم و ستم کرنے سے بچ سکو۔
اٴَوْ ما مَلَکَتْ اٴَیْمانُکُمْ ۔
یا کسی اور بیوی کے انتخاب کی بجائے جو کنیز تمہاری مملکت ہے اس سے استفادہ کرو کیونکہ ان کی شرائط آسان سی ہیں ( اگر چہ انہیں بھی ان کے حقوق ادا کئے جانا چاہییں)۔
ذلِکَ اٴَدْنی اٴَلاَّ تَعُولُوا۔
یہ (بیوی یا کنیز کے چناوٴ کا ) کام ظلم وستم اور عدالت سے انحراف سے بہتر بچاوٴ کرتا ہے غلامی کے مسئلہ کے بارے میں اور اس سلسلہ میں اسلام کے نظریے کے متعلق متعلقہ آیات میں تفصیلی بحث کی جائے گی ۔