تربیت الٰہی کی فوری تاثیر
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ۱۷۲الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۱۷۳فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ۱۷۴
یہ صاحبانِ ایمان ہیں جنہوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کہی- ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نہایت درجہ اج» عظیم ہے. یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہاکہ لوگو ں نے تمہارے لئے عظےم لشکر جمع کرلیا ہے لہذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے. پس یہ مجاہدین خدا کے فضل و کرم سے یوں پلٹ آئے کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کا اتباع کیااور اللہ صاحبِ فضلِ عظیم ہے.
جنگ احد اور واقعہ حمراء الاسد جس کی تفصیل گذر چکی ہے ، ان دونوں مواقع پر مسلمانوں کے جذبہ کا موازنہ کیا جائے تو انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک شکست خوردہ جماعت جس کے جذبے بلند تھے ، تعداد کافی نہ تھی اور جس میں بہت سے زخمی بھی موجود تھے اتنی تھوڑی سی مدت میں جو شاید چوبیس گھنٹے بھی نہ بنتی تھی اس کی حالت اتنی بدلی کہ وہ عزم راسخ اور بڑے ولولے اور جذبے کے ساتھ دشمن کے تعاقب پر آمادہ ہوگئی یہاں تک کہ قرآن ان لوگوں کے متعلق کہتا ہے جب انہیں اطلاع ملی کہ دشمن نے ان پر حملے کے لئے اکٹھ کر لیا ہے تو وہ صرف یہ کہ ڈرے نہیں بلکہ ان کاایمان اور بڑھ گیا اور ان کے استتقامت میں اضافہ ہوگیا ۔ در اصل یہ ہدف و مقصد پر ایمان رکھنے کی خاصیت ہے کہ انسان پر مشکلات و مصائب جس قدر بڑھیں اور وہ انہیں زیادہ قریب سے دیکھے اس کی پامردی اور استقامت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ در حقیقت ایسے میں اس کی تمام روحانی و مادی قوتیں خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے مجتمع ہو جاتی ہیں ۔ ایک چھوٹی سی جماعت میں یہ عجیب و غریب تغیر انسانی تربیت کرنے والی آیات قرآن اور پیغمبر اسلام کے موثر و دل آویز ارشادات کی فوری اور گہری تاثیر کا غماز ہے اور یہ بات بذات خود ایک معجزے سے کم نہیں ۔
۱۷۶ ۔ وَ لا یَحْزُنْکَ الَّذینَ یُسارِعُونَ فِی الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لَنْ یَضُرُّوا اللَّہَ شَیْئاً یُریدُ اللَّہُ اٴَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْآخِرَةِ وَ لَہُمْ عَذابٌ عَظیمٌ ۔
۱۷۷۔ إِنَّ الَّذینَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بِالْإِیْمانِ لَنْ یَضُرُّوا اللَّہَ شَیْئاً وَ لَہُمْ عَذابٌ اٴَلیمٌ ۔
ترجمہ
۱۷۶۔ جو لوگ راہ کفر میں دوسرے پر سبقت کرتے ہیں وہ تمہیں غمگین نہ کردیں کیونکہ ہو ہر گز خدا کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔
(علاوہ ازیں ) خدا چاہتا ہے ( کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں اور اس کے نتیجے میں ) آخرت میں ان کاکوئی حصہ قرار نہ دے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔
۱۷۷ ۔ لنہوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا ہے وہ خدا کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔