غزوہٴ حمراء الاسد
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ۱۷۲الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۱۷۳فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ۱۷۴
یہ صاحبانِ ایمان ہیں جنہوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کہی- ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نہایت درجہ اج» عظیم ہے. یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہاکہ لوگو ں نے تمہارے لئے عظےم لشکر جمع کرلیا ہے لہذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا ذمہ دار ہے. پس یہ مجاہدین خدا کے فضل و کرم سے یوں پلٹ آئے کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کا اتباع کیااور اللہ صاحبِ فضلِ عظیم ہے.
غزوہٴ حمراء الاسد
ہم کہ چکے ہیں کہ جنگ احد کے اختتام پر ابو سفیان کا فاتح لشکر بڑی تیزی سے مکہ کی طرف روانہ ہوا ۔ جب وہ روحاء کے مقام پر پہنچے تو اپنے کئے پر بہت پشیمان ہوئے اور انہوں نے مدینہ کی طرف لوٹنے اور باقی ماندہ مسلمانوں کو نابود کرنے کا ارادہ کیا ۔ یہ اطلاع پیغمبر اکرم کو پہنچی تو آپ نے فورا ً حکم دیا کہ جنگ احد میں شریک ہونے والا لشکر دوسری جنگ کے لئے تیار ہو جائے ۔ آپ نے یہ حکم خصوصیت سے دیا کہ جنگ احد کے زخمی بھی لشکر کی صفوں میں شامل ہوں ۔ ایک صحابی کہتے ہیں:
میں بھی زخمیوں میں سے تھا لیکن میرے بھائی کے زخم مجھ سے زیادہ شدید تھے ۔ ہم نے ارادہ کر لیا کہ جو بھی حالت ہو ہم پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچیں گے ۔ میری حالت چونکہ میرے بھائی سے کچھ بہتر تھی ، جہاں میرا بھائی نہ چل پاتا میں اسے کندھے پر اٹھا لیتا ۔ بڑی تکلیف سے ہم لشکر تک جا پہنچے پیغمبر اکرم اور لشکر اسلام ” حمراء الاسد “ کے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں پڑاوٴ ڈال دیا یہ جگہ مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی ۔
یہ خبر لشکر قریش تک پہنچی خصوصا ً جب انہوں نے مقابلے کے لئے ایسی آمادگی دیکھی کہ زخمی بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے ہیں تو وہ پریشان ہو گئے اور شاید انہیں یہ فکر بھی لاحق ہوئی کہ مدینے سے تازہ دم فوج ان سے آملی ہے ۔
اس موقع پر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے دلوں کو اور کمزور کر دیااور ان میں مقابلے کی ہمت نہ رہی ۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک مشرک جسکا نام معبد خزاعی تھا مدینے سے مکہ کی طرف جا رہا تھا ۔ اس نے پیغمبر اکرم اور ان کے اصحاب کی کیفیت دیکھی تو انتہائی متاثر ہوا ۔ اس کے انسانی جذبات میں حرکت پیدا ہوئی ۔ اس نے پیغمبر سے عرض کیا : آپ کی یہ حالت و کیفیت ہمارے لئے بہت ہی نا گوار ہے ، آپ آرام کرتے تو ہمارے لئے بہتر ہوتا ۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل پڑا اور روحاء کے مقام پر ابو سفیان کے لشکر سے ملا ۔ ابو سفیان نے اس سے پیغمبر اسلام کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا : میں نے محمد کو دیکھا ہے کہ وہ ایسا عظیم لشکر لئے تمہارا تعاقب کر رہے ہیں جس جیسا لشکر میں نے کھی پہلے نہیں دیکھا تھا اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔
ابو سفیان نے اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کہا : تم کیا کہہ رہے ہو ؟ ہم نے انہیں قتل کیا ، زخمی کیا اور منتشر کرکے رکھ دیا تھا ۔ معبد خزاعی نے کہا : میں نہیں جانتا تم نے کیا کیا ہے ، میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ ایک عظیم اور کثیر لشکر اس وقت تمہارا تعاقب کر رہا ہے ۔
ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ جائیں اور مکہ کی طرف پلٹ جائیں اور اس مقصد کے لئے کہ مسلمان ان کاتعاقب نہ کریں اور انہیں پیچھے ہٹ جانے کا کافی موقع مل جائے ، انہوں نے قبیلہ عبد القیس کی ایک جماعت سے خواہش کی کہ وہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں تک یہ خبر پہنچا دیں کہ ابو سفیان اور قریش کے بت پرست باقی ماندہ اصحاب پیغمبر کو ختم کرنے کے لئے ایک عظیم لشکر کے ساتھ تیزی سے مدینے کی طرف آرہے ہیں ۔ یہ جماعت گندم خریدنے کے لئے مدینہ جا رہی تھی جب یہ اطلاع پیغمبر اسلام اور مسلمانوں تک پہنچی تو انہوں نے کہا :حسبنا اللہ و نعم الوکیل ۔ ( خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارا بہتریں اور مدافع ہے )انہوں نے بہت انتظار کیا لیکن دشمن کے لشکر کی کوئی خبر نہ ہوئی ۔ لہذا تین روز توقف کے بعد وہ مدینہ کی طرف لوٹ گئے مندرجہ بالا آیات اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ ۱
الَّذینَ اسْتَجابُوا لِلَّہِ وَ الرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما اٴَصابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذینَ اٴَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَ اتَّقَوْا اٴَجْرٌ عَظیمٌ ۔
جنہوں نے خدا اورپیغمبر کی دعوت قبول کی اور جنگ احد میں اٹھائے گئے زخموں کے باوجود دشمن سے دوسری جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے ان میٰ سے نیک عملکرنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں یعنی پاکیزہ نیت اور خلوص کامل سے میدان میں شرکت کرنے والوں کے لئے اجر عظیم ہے ۔
زیر نظر آیت میں ایک گروہ کے لئے اجر عظیم مخصوص کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی کچھ ایسے افراد تھے جو صحیح طور پر مخلص نہ تھے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ” منھم “ ( ان میں سے بعض ) اس طرف اشارہ ہو کہ احد کے جنگجو لوگوں میں سے بعض کسی بہانے سے اس میدان سے کنارہ کش ہو گئے ۔
اس کے بعد قرآن نے ان می پا مردی و استقامت کی ایک درخشاں نشانی کا یوں تذکرہ کیا ہے :
الَّذینَ قالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزادَہُمْ إیماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ ۔
یعنی یہ وہی لوگ تھے جنہیں کچھ لوگوں نے ( قبیلہ عبدالقیس کے لوگ یا ایک روایت کے مطابق نعیم بن مسعود جو خبر لائے تھے ) کہا کہ دشمن کی فوج جمع ہو گئی ہے اور وہ حملہ کرنے کو تیار ہے ، ان سے ڈرو لیکن وہ نہ صرف یہ کہ ڈرے نہیں بلکہ اس کے بر عکس ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے کہا خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین حامی ہے ۔
اس استقامت، ایمان اور زبر دست پا مردی کے کے تذکرہ کے بعد قرآن ان کے عمل کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ” فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّہِ وَ فَضْلٍ “ یعنی وہ اس میدان سے اللہ سے فضل و نعمت کے ساتھ لوٹے ۔ نعمت و فضل اس سے بڑھکر اور کیا ہوگاکہ دشمن ان سے بھاگ گیا اور یہ صحیح سالم بغیر کوئی زحمت اٹھائے مدینہ پلٹ آئے ۔
فضل و نعمت میں ممکن ہے یہ فرق ہو کہ نعمت استحقاق کے طور پر اجرت کے مفہوم میں ہو اور فضل استحقاق سے بڑھ کر اور اس پر اضافہ ہو ۔
اس کے بعد تاکید کے طور پر ہے : لم یمسسھم سوء ۔ یعنی انہیں اس واقعہ میں تھوڑی سی تکلیف بھی نہیں پہنچی ۔ جبکہ ”و اتبعوا رضوان اللہ “ خوشنودی خدا ان کے ہاتھ آئی انہوں نے فرمان خدا کی اتباع کی ” و اللہ ذو فضل عظیم “ اور خدا کے پاس عظیم فضل انعام ہے جو حقیقی مومنین اور سچے مجاہدین کے انتظار میں ہے ۔
۱ ۔ نورالثقلین ، مجمع البیان ، المنار اور دیگر کتب ۔