Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کیا جنت و دوزخ اس وقت موجود ہیں ؟

										
																									
								

Ayat No : 133-136

: ال عمران

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ۱۳۳الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۱۳۴وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۱۳۵أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ۱۳۶

Translation

اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے اور اسے ان صاحبان هتقوٰی کے لئے مہیاّ کیا گیا ہے. جو راحت اور سختی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں اور غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے. وہ لوگ وہ ہیں کہ جب کوئی نمایاں گناہ کرتے ہیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ اپنے کئے پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے. یہی وہ ہیں جن کی جزا مغفرت ہے اور وہ جنّت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں .وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور عمل کرنے کی یہ جزا بہترین جزا ہے.

Tafseer

									اکثر علماء اسلام کا عقیدہ ہے کہ یہ دونوں اس وقت وجود خارجی رکھتے ہیں اور قرآنی آیات کا ظاہری معنیٰ بھی اس کی تاکید کرتا ہے ۔ نمونے کے طور پر :
(۱) محل بحث آیت اور دیگر کثیر آیات میں” اُعِدّت “(تیار کی جا چکی ہے ) استعمال ہوا ہے یا بعض دوسری تعبیرات جو اسی مادہ سے ہیں جو بعض مقا مات پر بہشت کے بارے میں اور بعض جگہ دوزخ کے بارے میں آئی ہیں ۔۱#
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہشت و دوزخ اس وقت تیار موجود ہیں اگر چہ انسانوں کے نیک وبد اعمال کے نتیجہ میں ان میں وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے

 ( غور کریں ) 
(۲) معراج سے متعلق سورہ النجم کی آیات میں یوں ہے :
وَ لَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً اٴُخْری ۔عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہی ۔عِنْدَہا جَنَّةُ الْمَاٴْوی ۔
دوسری مرتبہ پیغمبر نے جبرئیل کو سدر ة المنتہٰی کے پاس دیکھاجہاں دائمی جنت ہے ( والنجم ۔۱۳ تا۱۵)۔
یہ تعبیر جنت کے وجود پر دوسری شہادت ہے۔
کَلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقینِ ۔لَتَرَوُنَّ الْجَحیمَ ۔ثُمَّ لَتَرَوُنَّہا عَیْنَ الْیَقینِ ۔
اگر تمہیں علم الیقین ہوتا تو دوزخ کا مشاہدہ کرتے پھر اسے عین الیقین کے ساتھ دیکھتے ۔
معراج سے مربوط اور دیگر آیات میں بھی اس مسئلہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ 2#

 

۱# ۔سورہ توبہ آیت ۸۹ و آیت ۱۰۰ ، سورہ فتح آیت ۶ ، بقرہ آیت ۲۴ ، آل عمران ۱۳۱ و ۱۳۳ ، سورہ الحدید آیت ۲۱ کیطرف رجوع فرمائیں ۔
2#۔ توجہ رہے کہ عالم آخرت کی جنت اس سے مختلف ہے جس میں حضرت آدم (ع) رہے تھے ۔ کیونکہ وہ حضرت آدم(ع) کی خلقت سے قبل موجود تھی۔