ہلاک ہوجائےوہ، اس نے کتنا برا منصوبہ بنایا
إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ۱۸فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ۱۹ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ۲۰ثُمَّ نَظَرَ ۲۱ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ۲۲ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ۲۳فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ۲۴إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ۲۵
اس نے فکر کی اور اندازہ لگایا. تو اسی میں مارا گیا کہ کیسا اندازہ لگایا. پھر اسی میں اور تباہ ہوگیا کہ کیسا اندازہ لگایا. پھر غور کیا. پھر تیوری چڑھا کر منہ بسور لیا. پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور اکڑ گیا. اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے. یہ تو صرف انسان کا کلام ہے.
تفسیر
ہلاک ہوجاۓ وہ، اس نے کتنا بُرا منصوبہ بنایا
ان آیات میں اس شخص کے بارے میں ، جسے خدا نے فراواں مال و الادی تھی اور وہ پیغمبر اسلامؐ کی مخالفت کرنے لگا ــــــــــــــ یعنی "ولید بن مغیرہ" مخزومی کی ـــــــــــ مزید وضاحتیں آئی ہیں۔
فرماتا ہے : "اس نے سوچا کہ پیغمبر اور قرآن کو کس چیز کے ساتھ مہتم کرے؟ اور اس نے ایک منصوبہ اپنے ذہن میں تیار کرلیا "۔(اِنَّهٝ فَكَّـرَ وَقَدَّرَ)۔
واضح رہے غور وفکر کرنا اپنی ذات سے ایک اچھا کام ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حق کی راہ میں ہو۔ بعض اوقات اس کی ایک ساعت ایک سال کی عبادت، بلکہ عمر بھر کی عبادت کی فضیلت رکھتی ہے ، کیونکہ وہی ایک لمحہ ہوسکتا ہے کہ انسان کی سرنوشت کو دگرگوں کردے ، لیکن اگر غور وفکر کو کفر و فساد اور شیطنت کی راہ میں استعمال کیا جاۓ تو وہ مزموم اور قبیح ہے اور ولید کی فکر اور سوچ اسی قسم کی تھی۔
"قٰدر" "تقدیر" کے مادہ سے ، یہاں مطلب کو ذہن میں آمادہ کرنے اور اس قبیح منصوبے کے اجراء کے لیے مصمتم ارادہ کرنے کے معنی میں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
پھر اس کی مذمت کے لیے مزید کہتا ہے : "وہ ہلاک ہوجاۓ" اس نے حق سے مبارزہ کرنے کے لیے کیسا منصبہ بنایا ہے"۔(فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس بعد تاکید کے عنوان سے مزید کہتا ہے؛ "پھر بھی وہ مارا جاۓ ، اس نے حق سے مقابلہ کرنے کے لیے ، کس قسم اک منصوبہ تیار کیا ہے"۔(ثُـمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ)۔
اور یہ اسی چیز کی طرف اشارہ ہے جو شانِ نزول میں آئی ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ مشرکین کے افکار کو متحد کرے اور انھیں ایک ہی جہت دے، تاکہ یک زبان ہوکر ہیغمبرؐ کے خلاف ایک ہی طرح کا پروپگنڈا کریں اور جب انھوں نے یہ پیش نہاد کی کہ حضرت کو "شاعر" لا لقب دیں تو اس نے قبول نہ کیا،
اس کے بعد انھوں نے "کاہن" کے عنوان کی پیشکش کی تو اس نے اسے بھی موافقت نہ کی، پھر "مجنوں" کے عنوان کو پیش کیا تو اس نے اسے بھی پسند نہ کیا، آخر میں انھوں نے یہ پیشکش کی کہ پیغمبرؐ کو "ساحر" کہہ کر پکاریں ےو اس نے ان کے ساتھ پوافقت کی، کیونکہ اس کے خیال میں جادو کا اثر دو دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنا اور دو مخالف افراد کے درمیان دوستی پیدا کرنا تھا اور یہ بات اسلام اور قرآن کے ظہور کے بعد پیدا ہوگئی تھی۔ اور چونکہیہ نقشہ اور منصوبہ مطالعہ کرنے اور سوچ بچار کے بعد تیار کیاگیا تھا لہزا قرآن انھیں "فکر و قدر" کی تعبیر کے ساتھ جو بہت ہی مختصر اور پر معنی ہے ، پیش کرتا ہے۔ اس طرح سے اگرچہ پیش نہاد دوسروں کی طرف سے ہوئی تھی، لیکن غوروفکر اور انتخاب "ولید" کی طرف
ہوا تھا ۔
بہرحال یہ جملہ ــــــــ خصوصًا اس کے تکراروں کی طرف توجہ کرتے ہوۓ ـــــــ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اپنے شیطانی افکار و نظریات میں پوری مہارت تھی، اس طرح سے کہ اس کی فکر و سوچ باعثِ تعجب ہے۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے : "اس نے دوبارہ نظر کی"۔(ثُـمَّ نَظَرَ)۔
اور اس نے اپنی ساختہ و پر داختہ فکر کی نئے سرے سے جانچ پڑتال کی، تاکہ اس کے ضروری استحکام و انجام اور مختلف پہلوؤں سے آگاہ و مطمئن ہوجاۓ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
"پھر اس نے اپنا منہ چڑایا اوت جلدبازی سے کام لیا"۔(ثُـمَّ عَبَسَ وَبَسَ)۔
"پھر اس نے حق کی طرف پشت پھیرلی اور تکبر کیا"۔(ثُـمَّ اَدْبَـرَ وَاسْتَكْـبَـرَ )۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اور آخرکار اس نے کہا :"یہ چیز ایک عمدہ اور پرکشش جادو کے سواــــــــ جیسا کہ گزشتہ لوگوں سے نقل ہوا ہے ـــــــــ کچھ نہیں ہے"۔(فَقَالَ اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ يُّؤْثَرُ)۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
"یہ صرف انسانوں کا قول ہے اور اس کا وحی ا انی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے"۔(اِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ)۔
اس طرح سے اس نے اپنی آخری بات، قرآن سے مبارزہ اور مقبلہ کرنے کے لیے ، باربار کے مطالعہ اور شیطانی سوچ کے بعد کہی، اور زمانہ جاہلیت و شرک کے اس متفکر دماغ نے اپنی پوری شیطنت خرچ کرنے کے باوجود اپنی اس بات سے قرآن کی حد سے زیادہ مدح و ثناء اور تعریف و تمجید کر ڈالی، حالانکہ وہ خود اس بات کو نہ سمجھا ، اس نے اسبات کی نشاندہی کی کہ قرآن ایسی کشش اور حد سے زیادہ قوت جاذبہ رکھتا ہے، جو ہر انسان کے دل کو مسخر کرلیتا پےاور اس کے قول کے مطابق اس میں ایسی سحر انگیز تاثیر ہے جو دلوں کو مسحور کر دیتی ہے اور چونکہ قرآن میں جادوگروں کے جادو سے کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے، بلکہ وہ منطقی ، موزوں اور جچے تلے اقوال اور باتوں کا مجموعہ ہے، لہزا یہ بات خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انسان کا کلام نہیں ہے، بلکہ وہ آسمانی وحی ہے اور اس نے ماورا طبیعت عالم اور خدا کے بےپایں علم سے سرچشمہ حاصل کی ہے جس میں پورے نظم و انجام اور استحکام کے ساتھ تمام خوبیاں اور زیبائیاں جمع ہیں۔
"عبس" "عبوس" (بروزن جلوس) کے مادہ سے، منہ چڑانے کے معنی میں ہے اور "وعبوس" (بروزن مجوس) اس شخص ے معنی میں ہے جو اس صفت کا حامل ہے۔
"بسر" "بسور" کے مادہ سے اور "بسر" (بروزن نصر) بعض اوقات تو کسی کام کے وقت آنے سے پہلے اس میں جلدی کرنے کے معنی میں آتے ہے اور کبھی منہ چڑانے کے اور چہرہ کو دگرگوں کرنے کے معنی میں ہے۔
زیر بحث آیت میں اگر دوسرا معنی مراد ہو تو یہ "عبس" کے جملہ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور اگر یہ پہلے معنی میں ہو، تو یہ قرآن کے لیے ایک غلط عنوان چسپاں کرنے مین، لہزا گھبراہٹ اور سراسمیگی کے ساتھ جلد بازی سے تصمیم گیری کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
"یؤثر" کا جملہ "اثر" کے مادہ سے ، اس روایت کے معنی میں ہے، جو گزشتہ لعگوں سے نقل ہوئی ہو، اور وہ جو ان سے باقی رہ ھئے ہوں اور بعض نے اسے "ایثار" کے مادہ سے، انتخاب کرنے، مقدم رکھنے اور ترجیح دینے کے معنی میں سمجھا ہے۔
پہلے معنی کے مطابق "ولید" کہتا ہے : یہ گزشتہ لوگوں سے نقل شدہ جادو کی مانند، ایک جادو ہے اور دوسرے معنی کے مطابق وہ یہ کہتا ہے یہ ایک ایسا جادو ہے جو اپنی حلاوت اور کشش کی بناء پر دلوں میں اثر کرتا ہے ،اور لوگ اس کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔
بہرحال یہ قرآن کے اعجاز کا ایک ضمنی اعتراف ہے۔ کیونکہ قرآن جادوگروں کے غارق العاد کاموں کے ساتھ کوئی مشاہبت نہیں رکھتا، یہ ایک ایسا سنجیدہ و محکم کلام ہے، جو معنویتسے پر ہے اور بے مثل و نظیر قوت جاذبہ و نفوذ رکھتا ہے۔ اگر یہ "ولید" کے قول کے مطابق بشر کا کلام ہوتا، تو پھر دوسرے بھی اس کی مثل و نظیر لاسکتے تھے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن نے بارہا مقابلہ کی دعوت دی ہے، لیکن اس کے ان سخت ترین دشمنوں میں سے ــــــــــــــ جو عربی زبان میں حد سے زیادہ مہارت رکھتے تھے ـــــ کوئی بھی اس جیسی چیز نہ لاسکے، بلکہ وہ اسسے کمتر بھی نہ لاسکے، اور معجزہ کا معنی
یہ ہے۔