Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ٣گھرانے کے نظام کی اہمیّت

										
																									
								

Ayat No : 4-7

: الطلاق

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ۴ذَٰلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا ۵أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ۶لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ ۖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ۷

Translation

اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر ان کے یائسہ ہونے میں شک ہو تو ان کا عدہ تین مہینے ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جن کے یہاں حیض نہیں آتا ہے اور حاملہ عورتوں کا عدہ وضع حمل تک ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے امر میں آسانی پیدا کردیتا ہے. یہ حکم خدا ہے جسے تمہاری طرف اس نے نازل کیا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کی برائیوں کو دور کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے. اور ان مطلقات کو سکونت دو جیسی طاقت تم رکھتے ہو اور انہیں اذیت مت دو کہ اس طرح ان پر تنگی کرو اور اگر حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک انفاق کرو جب تک وضع حمل نہ ہوجائے پھر اگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو اور اسے آپس میں نیکی کے ساتھ طے کرو اور اگر آپس میں کشاکش ہوجائے تو دوسری عورت کو دودھ پلانے کا موقع دو. صاحبِ وسعت کو چاہئے کہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کے رزق میں تنگی ہے وہ اسی میں سے خرچ کرے جو خدا نے اسے دیا ہے کہ خدا کسی نفس کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا گیا ہے عنقریب خدا تنگی کے بعد وسعت عطا کردے گا.

Tafseer

									نہ صرف عقل کاحکم یہی ہے ، بلکہ حکمِ شریعت بھی اسی مطلب کاگواہ ہے کہ انسانوں کی ذمّہ داریاں ان کی طاقت کے مُطابق ہونی چاہئیں : لا یکلف اللہ نفساً الاّ ما ٰ تاھا کاجملہ جواوپروالی آ یات کے ضمن میں آ یاہے اس میں اسی معنی کی طرف اشارہ ہے .لیکن روایات میں آ یا ہے کہ ما اٰ تاھا سے مُراد ما اعلمھا ہے . یعنی ہرشخص پراتنی ہی ذمّہ داری ڈالتا ہے جتنی اسے تعلیم دی ہے .اسی لیے عُلماء نے علم اصول میں اصل برأ ت کے مباحث میں ، اس آ یت کے ساتھ استد لال کیاہے کہ اگرانسان کسی حکم کونہیں جانتا تو وہ اس کے لیے واجب دِہ نہیں ہے ۔
 لیکن چونکہ عدم آگاہی بعض اوقات عدم توانائی کاسبب بن جاتی ہے ، لہٰذاممکن ہے اس سے مُراد وہ جہالت ہوجو عجز وناتوانی کاسرچشمہ بنے ۔

 اس بناء پر ممکن ہے یہ آ یت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہو کہ جوعدم قدرت کواوراس جہالت کو بھی شامل ہو ،جوکسی کام کے انجام دینے میں میں عدم قدرت کی موجب ہو ۔