Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ٢روحِ توکّل

										
																									
								

Ayat No : 2-3

: الطلاق

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ۲وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ۳

Translation

پھر جب وہ اپنی مدت کو پورا کرلیں تو انہیں نیکی کے ساتھ روک لو یا نیکی ہی کے ساتھ رخصت کردو اور طلاق کے لئے اپنے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بناؤ اور گواہی کو صرف خدا کے لئے قائم کرو نصیحت ان لوگوں کو کی جارہی ہے جو خدا اور روز هآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے.

Tafseer

									خداپر تو کّل کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کام کی سعی وکوشش کواس کے سپرد کردے اور اپنی مشکلات کاحل اسی سے چاہے .وہ خدا جواس کی تمام احتیاجات سے آگاہ ہے،وہ خدا جواس کے بارے میں رحیم ومہربان ہے،اوروہ خُدا جوہرمشکل کوحل کرنے کی قدرت رکھتاہے ۔

اب جوشخص روحِ توکل کاحامل ہے ، وہ ہرگز یاس ونا امیدی کواپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا . مشکلات کے مقابلہ میں ضعف وزبوںحالی کا احساس نہیں کرتا اور سخت حوادث کے مقابلے میں ڈٹا رہتاہے،اس کایہی علم و عقیدہ اسے ایسی رُو حانی طاقت دیتاہے جس سے وہ مشکلات پر غلبہ حاصل کرسکتاہے .دوسری طرف سے غیبی امدادیں کہ توکّل کرنے والوں کوجن کی خوشخبری دی گئی ہے ، وہ اس کی مدد کو آ جاتی ہیں اوراُسے شکست و ناتوانی سے نجات بخشتی ہیں ۔

 ایک حدیث میں پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:میں نے خدا کی وحی پہنچانے والے فرشتے جبرئیل سے پوچھا :توکّل کیاہے ؟ تواس نے کہا:

العلم بان المخلوق لایضر ولاینفع ، ولا یعطی ولا یمنع، و استعمال الیأس من الخلق ،فاذا کان العبد کذالک لم یعمل لاحد سوی اللہ و ولم یرج ولم یخف سوی اللہ ولم یطمع فی احد سوی اللہ فھٰذا ھو التوکل ۔

توکل کی حقیقت یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ مخلوق نہ نقصان پہنچا سکتی ہے ، نہ ہی نفع، نہ کچھ عطا کرسکتی ہے ، نہ روک سکتی ہے ، مخلوق سے کوئی اُمید نہ رکھنا (اور خداہی سے لو لگا نا) جس وقت ایسا ہو جائے گا توپھر انسان خدا کے علاوہ کسِی کے لیے کام نہیں کرتا اوراس کے غیر سے اُمید نہیں کرتا، نہ اس کے غیر سے ڈ رتا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسِی اور کے ساتھ دل لگاتاہے ، یہ ہے توکّل کی روح ( ۱) ۔

اس عمیق مضمون کے ساتھ ، توکّل انسان کوایک نئی شخصیّت بخشتی ہے ، اوراس کے تمام اعمال میں اثر پیداکرتی ہے .اسی لیے ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے شب معراج بارگاہِ خدا وندی میں سوال کیا :

 پرور دگار ا:ای الا عمال افضل ؟

کون ساعمل سب سے افضل و برتر ہے ؟

خداوند متعال نے فرمایا:

لیس شی ء عندی افضل من التو کل علیّ والرضا بما قسمت

میرے نزدیک مجھ پر توکّل کرنے اورجوکچھ میں نے تقسیم کیاہے اس پرراضی رہنے سے افضل و برتر کوئی چیز نہیں ہے ۔

یہ بات واضح ہے کہ اس معنیٰ میں توکّل ہمیشہ جہاد اورسعی وکوشش کے ساتھ ہوتی ہے ،سُستی اور ذمّہ دار یوں سے فرار کے ساتھ نہیں ہوتی ۔

 ہم نے اس سلسلہ میں تفسیر نمونہ کی جلد ١٠ میں ( سورۂ ابراہیم کی آ یت ١٢ کے ذیل میں ایک اور تشریح بھی پیش کی ہے ۔

  

۱۔بحارالانوار ،جلد٦٩ ،صفحہ ٣٧٣،حدیث ١٩۔