٢۔"" شفاعت کے بارے میں گفتگو
أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّىٰ ۲۴فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَىٰ ۲۵وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ ۲۶
کیا انسان کو وہ سب مل سکتا ہے جس کی آرزو کرے. بس اللہ ہی کے لئے دنیا اور آخرت سب کچھ ہے. اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کام نہیں آسکتی ہے جب تک خدا .... جس کے بارے میں چاہے اور اسے پسند کرے .... اجازت نہ دے دے.
آخری آ یت ان آیات میں سے ہے ، جوفرشتوں کے ذ ریعہ امکان شفاعت کی وضاحت کے ساتھ خبردیتی ہے ،جہاں وہ اذن ورضائے خدا سے شفاعت کاحق رکھتے ہیں ، انبیاء اوراولیائے معصوم بطریق اولیٰ اس قسم کے حق کے حق دار ہیں ۔
لیکن اس بات کونہیں بھولنا چاہیئے کہ اوپروالی آیت صراحت کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ : یہ شفاعت بے قید وشرط کے نہیں ہوگی ، بلکہ یہ اذن ورضائے خداکے ساتھ مشروط ہے ۔ اور چونکہ اس کااذن ورضا حت وکتاب کے بغیر نہیں ہے لہٰذاانسان اوراس کے درمیان رابط ہوناچاہیئے تاکہ وہ اس کے لیے،اپنے مقربان درگاہ کو، شفاعت کی اجازت دے دے ۔اوریہ وہ مقام ہے جہاں امید ِ شفاعت ،انسان کے لیے ایک تربیتی مکتب کی صورت میں اختیاکرلیتی ہے ، اور خدا سے اس کے تمام رشتوں کے ٹوٹنے سے مانع ہوجاتی ہے(۱) ۔
۱۔""من یشائ"" کی تعبیر جواوپروالی آ یت میں آ ئی ہے ممکن ہے ایسے انسانوں کی طرف اشارہ ہوجن کی شفاعت کی خدا اجازت دیتاہے،یااُن فرشتوں کی طرف اشارہ ہوجنہیں وہ شفاعت کی اجازت دیتاہے ،لیکن پہلااحتمال زیادہ مناسب ہے ۔