Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ امور مادی کو کس نے زینت دی ہے 

										
																									
								

Ayat No : 14

: ال عمران

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ۱۴

Translation

لوگوں کے لئے خواہشااُ دنیا - عورتیں,اولاد, سونے چاندی کے ڈھیر, تندرست گھوڑے یا چوپائےً کھیتیاں سب مزیّن اور آراستہ کردی گئی ہیں کہ یہی متاع دنیا ہے اور اللہ کے پاس بہترین انجام ہے.

Tafseer

									”زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ “۱
۱” شہوات“ ۔ شہوت کی جمع ہے جس کامعنی ہے کسی چیز سے شدید لگاوٴ اور تعلق رکھنا ” لیکن مندرجہ بالا آیت میں ” شہوات“ مشخصات“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ” مشہیات “ ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں تعلق اور لگاوٴ ہو ۔ 
یہ جملہ فعل مجہول کی شکل میں آیا ہے اس میں کہا گی اہے : بیوی بچوں اور مال و دولت سے لگاوٴ اور ان سے محبت کو لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ بنایا گیا ہے ۔ 
یہاں سوال پید اہوتا ہے کہ یہ پسندیدہ بنانے والا اور انہیں لوگوں کی نظروں میں زینت دینے والا کون ہے ۔ 
بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ یہ شیطانی ہوا و ہوس ہے جو انہیں لوگوں کی نگاہوں میں پسندیدہ بناتی ہے وہ سورہ نمل کی آیت ۲۴ سے استدلال کرتے ہیں جس میں فرما یا گیا ہے : 
”زیّن لھم الشیطان اعمالھم“۔ 
اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نگاہ میں زینت دی ہے ۔
ایسی اور بھی آیات موجود ہیں ۔ 
لیکن یہ استدلال صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ محل بحث آیت میں اعمال کے بارے میں گفتگو نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں مال ، عورتوں اور اولاد کے بارے میں گفتگو ہے ۔ 
آیت کی صحیح تفسیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ زینت دینے والا خدا ہی ہے اور یہ قوت اس نے انسان کی فطرت و طینت میں ودیعت کی ہے ۔ کیونکہ خدا ہی انسان میں اولاد اور مال و دولت کی محبت پیدا کرتا ہے تاکہ اسے آزمائے ، اسے کمال و ارتقاء عطا کرے اورتربیت کے راستے میں آگے لے جائے ۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے ۔ 
” انّا جعلنا ما علی الارض زینةً لّھا لنبوھم ایّھم احسن عملا ۔ “: 
ہم نے زمین کی تمام چیزوں کو ان کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ ان کی اخلاقی تربیت ہو سکے یعنی اس محبت و دلبستگی سے صرف سعادت ، اصلاح اور تعمیر کے لئے فائدہ اٹھائیں نہ یہ کہ فتنہ و فساد اور تباہی و بر بادی کے لئے انہیں کا میں لائیں ۔ ( کہف ۔ ۷)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ زیر نظر آیت میں پہلے ازدواج اور اولاد کا ذکر ہے ۔ آج کے ماہرین ِ نفسیات بھی کہتے یں کہ جنسی پہلو انسان کے قوی ترین غرائز او راندرونی تقاضوں میں سے ایک ہے ۔ انسان کی تاریخ اور دورِ حاضر بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ بہت سے معاشرتی حوادث کا سر چشمہ اسی انسانی خواہش سے اٹھنے والے طوفان تھے ۔ 
اِس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ زیر بحث آیت اور ایسی دوسری آیات بیوی بچوں اور مال و دولت سے معتدل محبت اور لگاوٴ کی مذمت نہیں کرتیں کیونکہ معنوی اور روحانی مقاصد و اہداف کی پیش رفت مادی مسائل کے بغیر ممکن نہیں ۔ علاوہ ازیں قانون شریعت کبھی قانون فطرت سے متضاد نہیں ہوسکتا اور قانون ِ فطرت قابل ِ مذمت نہیں ہوتا ہاں البتہ ایسا عشق و محبت جو افراط کی حد کو پہنچ جائے ۔ بہ الفاظ دیگر پرستش و عبادت بن جائے وہ قابلِ مذمت ہے