Tafseer e Namoona

Topic

											

									  وجہ اللہ کامفہوم

										
																									
								

Ayat No : 272

: البقرة

لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ۲۷۲

Translation

اے پیغمبران کی ہدایت پا جانے کی ذمہ داری آپ پر نہیںہے بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اورلوگو جو مال بھی تم راسِ خدا میں خرچ کروگے وہ دراصل اپنے ہی لئے ہوگا اور تم تو صرف خوشنودی خدا کے لئے خرچ کرتے ہو اور جوکچھ بھی خرچ کروگے وہ پوراپورا تمہاری طرف واپس آئے گا اور تم پرکسی طرح کا ظلم نہ ہوگا.

Tafseer

									”وجہ“کا لغوی معنی ہے ”چہرہ“۔بعض اوقات یہ ”ذات“کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ۔ اس بناء پر ” وجہ اللہ“ کامعنی ہوا ”ذات خدا “
انفاق کرنے والوں کی نظر میں پروردگار کی ذات پاک ہونا چاہیے اس سے معلوم ہواکہ لفظ ”وجہ “اس آیت میں اور ایسی دیگر آیات میں ایک طرح کی تاکید کا حامل ہے کیونکہ ”ذات خدا ‘کے لیے میں ”خدا کے لیے “کی نسبت زیا دہ تاکید ہے یعنی حتمی طور پر خدا کے لیے ہو کسی اور کے لیے نہ ہو ۔
علاوہ ازیں انسان کا چہرہ ا س کے ظاہری بدن کا بہترین حصہ ہوتا ہے ۔قوت بصارت ، قوت سماعت ،اور قوت گو یائی اسی حصہ میں موجود ہیں ۔ اس لیے جب لفظ ”و جہ“استعمال ہو تو وہ اہمیت کی طرف اشارہ کرہا ہوتا ہے ۔ یہاںبھی خدا کے بارے میں یہ لفظ بطور کنا یہ استعمال ہو ا ہے اور واقع میں اس سے ایک طرح کا احترام او ر اہمیت ظاہر ہورہی ہے ۔یہ بدیہی ہے کہ خداا تعالی جسم رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی چہرہ ہے۔ 
”وما تنفقو ا من خیر یوف الیکم وانتم لا تظلمون “: 
آیت کے اس حصے میں سابق مفہوم کو زیادہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے یہ گمان نہ کرو کہ انفاق سے تمہیں صرف تھوڑا سا فائدہ پہنچے گا بلکہ جو کچھ تم خرچ کرو گے سب تمہاری طرف پلٹ آئے گا اور تم پرتھوڑا سا ظلم بھی نہ ہو گا اس لیے انفاق کرتے وقت ہا تھ او ر دل کھلا رکھو۔
ضمنی طور پر یہ جملہ تجسم اعمال کے مسئلہ پربھی دلیل ہے ۔ کیو نکہ ا س کے مطابق :جو تم خرچ کرو گے وہی چیز تمہیں واپس کردی جا ئے گی ۔ 
۲۷۳۔للفقرآء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیمٰھم لا یسئلون الناس الحافاوماتنفقوا من خیرفان اللہ بہ علیم 
ترجمہ 
۲۷۳۔(تمہارا نفاق خاص طور پرایسے لو گو ں کے لیے ہو نا چاہیے )جوحاجت مند ہوں اورراہ خدا میں محصور ہو چکے ہوں (دین خدا کی طرف ان کی رغبت کی وجہ سے وہ بے وطن ہو گئے ہوں اور جہاد میں شرکت کی وجہ سے ان کے لیے ممکن نہ رہا ہو کہ وہ کسب وتجارت کے ذریعہ اپنے اسباب زندگی فراہم کر سکیں)سفر نہ کرسکتے ہوں (کہ سفر کے ذریعہ روزگار مہیاکرسکیں اور ان کی خودداری کی وجہ سے بے خبر لوگ انہیں دولت مند اور توانگر سمجھتے ہیں لیکن تم انہیں ان کے چہروں سے پہنچان لو گے اور وہ اصرار کر کے ہر گز لوگوں سے کوئی چیز طلب نہیں کرتے (یہ ان کی نشانیاں ہیں )اور ہر اچھی چیز جو تم راہ خدا میں خرچ کرو خدا اس سے آگا ہ ہے ۔ 
شان نزول
امام با قرسے منقو ل ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (۱)۔مسجد میں ان کی رہائش چونکہ مسجد کے احترامات کے منافی تھی لہٰذا انہیں حکم دیا گیا کہ مسجد سے باہر صفہ (۲) میں منتقل ہو ں جا ئیں ۔ ا س صورت حال پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو اپنے ان بھائیوں کو ہر ممکنہ امداد کر نے کا حکم دیا گیا ہے اور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔

 


(۱)اصحاب صفہ :یہ تقریباََچارسوافراد تھے ۔ان کا مکہ اور اطراف مدینہ سے تھا۔ مدینہ میں ان کا کوئی گھر اورکوئی رشتے دار نہ تھا۔اس لیے انہوں نے مسجد نبوی میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ انہوں نے ہر اسلامی جہاد میں شرکت کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کر رکھاتھا ۔
(۲)صفہ۔بڑے اور وسیع بر آمدے کو کہتے ہیں ۔
تفسیر