Tafseer e Namoona

Topic

											

									  انفاق کرنے والوں پر اس کے اثرات

										
																									
								

Ayat No : 272

: البقرة

لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ۲۷۲

Translation

اے پیغمبران کی ہدایت پا جانے کی ذمہ داری آپ پر نہیںہے بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اورلوگو جو مال بھی تم راسِ خدا میں خرچ کروگے وہ دراصل اپنے ہی لئے ہوگا اور تم تو صرف خوشنودی خدا کے لئے خرچ کرتے ہو اور جوکچھ بھی خرچ کروگے وہ پوراپورا تمہاری طرف واپس آئے گا اور تم پرکسی طرح کا ظلم نہ ہوگا.

Tafseer

									”وما تنفقو امن خیر فلانفسکم “:
آیت کے اس حصے میں فرما یا گیا ہے کہ ا نفاق کے فوائد کی با زگشت خود تمہاری طرف ہے ۔ ا س میں انفاق کرنے والوں کو اس انسانی عمل کی تشویق دلائی گئی ہے ۔مسلم ہے کہ جب یہ انسان جا ن لیتا ہے کہ اس کے کا م کا نتیجہ اور فائدہ خود اسی کو حاصل ہو گاتو اس کا دل زیادہ اس کا م میں لگے گا ۔
ممکن ہے کہ بادی النظر میں یہ معلوم ہو کہ انفاق کے منا فع کی بازگشت سے مراد اس کی اخروی جزا اور اس کے اخروی نتائج ہیں ۔یہ مفہوم اگرچہ صحیح ہے لیکن ایسا نہیں کہ انفاق کا فائدہ فقط آخرت میں حاصل ہو تا ہے بلکہ اس دنیا میں بھی اس کے مادی اور معنوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
معنوی لحاظ سے انفاق کرنے والے میں عفو وبخشش ،ایثا ر ،دوستی اور اخوت کے جذبات پیدا ہو تے ہیںاور حقیقت میں یہ انسان کے تکامل اور اس کی روح کے ارتقاء کے لیے ایک موٴثر تر بیتی ذریعہ ہے ۔
مادی لحاظ سے دیکھا جائے تو معاشرے میں محروم اور بےنوا لوگو ں کی موجودگی خطر نا ک دھماکوںکاسبب بنتی ہے اور یہ دھماکے بعض اوقات اصل ملکیت کو ختم کر دےتے ہیں۔تمام دولت اور سرمائے کو نگل جاتے ہیں اور نابود کردےتے ہیں ۔
انفاق اور خرچ کرنے سے مختلف طبقات میں تفاوت میں کمی آتی ہے ا ور طبقاتی کشمکش کی وجہ سے معاشرے کو جو خطر ات لاحق ہو تے ہیں انفاق کے ذریعہ ٹل جا تے ہیں ۔ انفاق غیض وغضب کی آگ کوٹھنڈا کرتا ہے اور محروم طبقوں کو جلا دینے والے شعلوں کو بجھا دیتاہے اور ان میںسے انتقا م کے جذ بات ختم کر دیتا ہے ۔
ا س بناء پر انفاق اجتماعی اہمیت ،اقتصادی سا لمیت اور مختلف دیگر مادی ومعنو ی پہلووٴں کے پیش نظر خود خرچ کر نے والوں کے فائد ے میں ہے ۔
”وما تنفقون الاابتغاء وجہ اللہ“:
یعنی مسلمان اپنے اموال خوشنودیٴ خدا کی طلب کے علاوہ خرچ نہیںکرتے ۔
جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے ،ممکن کہ جملہ خبریہ یہاں نہی کے معنی میں ہو یعنی لوگوں کو انفاق نہیں کرنا چاہیئے مگر یہ کہ خدا کی رضا کے لیے ہو اور انفاق صرف اس صورت میں سود مند اور مفید ہے جب خدا کی خاطر انجا م پذیر ہو ۔