Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تم ان کی ہدایت پر مجبور نہیں ہو

										
																									
								

Ayat No : 271

: البقرة

إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ۲۷۱

Translation

اگر تم صدقہ کوعلی الاعلان دوگے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر حُھپا کر فقرائ کے حوالے کردوگے تو یہ بھی بہت بہترہے اور اس کے ذریعہ تمہارے بہت سے گناہ معاف ہوجائیں گے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے.

Tafseer

									لیس علیک ھدٰھم :یعنی تم ان کی ہدایت پر مجبور نہیں ہو ۔
اس جملے میں پیغمبر اکرم سے خطاب ہے اور گذشتہ آیات سے اس کا ربط واضح ہے کیونکہ گذشتہ آیت میں کلی طور پرانفاق کا ذکر ہے اور یہ آیت غیر مسلموں پر اس معنی میں خرچ کرنے کی تشریح کرتی ہے کہ غیر مسلم فقراء و مساکین پر اس مقصد کے لیے خرچ نہ کرنا کہ وہ فقر و فاقہ کی سختی سے اکتا کر اسلام قبول کرلیں اور اور ان کی ہدایت ہوجائے ، یہ صحیح نہیں ہے جیسے اس دنیا میں خدائی بخشش اور نعمتیں ( بلا تفریق دین و آئین ) سب انسانوں کے لیے ہیں مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ جب مستحب انفاق کریں اور حاجت مند وں کی حاجت روائی کریں تو ضروری مواقع پر غیر مسلموں کی حالت کا بھی خیال رکھیں 
البتہ یہ اس صورت میں ہے جب غیر مسلموں پر خرچ کرنا انسانی مدد کے طور پر ہو  کفر کی تقویت اور اسلام دشمنوں کی منحوس سازشوں کی پیش رفت کا سبب نہ بنے بلکہ انہیں اسلام کی روح ِ انسان دوستی سے آگاہی کا ذریعہ بنے ۔
یہ جو پیغمبر اکرم سے کہا گیا ہے کہ تم ان کی ہدایت پر مجبور نہیں ہو ،واضح ہے کہ اس کا یہ مقصد نہیں کہ ارشاد و تبلیغ آپ کا فریضہ اور ذمہ داری نہیں ۔ کیونکہ ارشاد و تبلیغ تو پیغمبر کے واضح ترین اور بنیاد ترین پروگرام کا حصہ ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ کا فریضہ نہیں کہ ان پر سختی کریں اور انہیں ہدایت پر مجبور کریں ۔ دوسرے لفظوں میں مراد جبری ہدایت کی نفی ہے اختیاری ہدایت کی نہیں یا مراد تکوینی کی نفی ہے ، ہدایت تشریعی کی نہیں ۔ اس کی وضاحت ذیل میں پیش کی جائے گی