کیا مختلف مذاہب اختلاف کا سبب ہیں ؟
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ۲۴۶وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۲۴۷وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۲۴۸فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ۲۴۹وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ۲۵۰فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ۲۵۱تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ۲۵۲
کیا تم نے موسیٰ علیھ السّلامکے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کونہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راسِ خدا میں جہاد کریں. نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہادواجب ہوجائے توتم جہاد نہ کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیوںکر جہاد نہ کریں گے جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بّچوںسے الگ نکال باہر کردیا گیا ہے. اس کے بعد جب جہاد واجب کردیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور اللہ ظالمین کو خوب جانتا ہے. ان کے پیغمبر علیھ السّلامنے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو حاکم مقرر کیا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح حکومت کریں گے ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہم ہی حقدار حکومت ہیں. نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور صاحبِ علم بھی. اور ان کے پیغمبر علیھ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میںپروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسیٰ علیھ السّلام اور آل ہارون علیھ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے قدراُ پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو. اس کے بعد جب طالوت علیھ السّلام لشکر لے کرچلے تو انہوں نے کہا کہ اب خدا ایک نہر کے ذریعہ تمہارا امتحان لینے والا ہے جو اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا اور جو نہ چکھے گا وہ مجھ سے ہوگا مگر یہ کہ ایک چلّو پانی لے لے. نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پانی پی لیا سوائے چند افراد کے---- پھر جب وہ صاحبانِ ایمان کو لے کر آگے بڑھے لوگوں نے کہا کہ آج تو جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کی ہمت نہیں ہے اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. اور یہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا کہ خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرما. نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دے دی اور داؤد علیھ السّلامنے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاہا دے دیا اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے. یہ آیااُ الہٰیہ ہیں جن کو ہم واقعیت کے ساتھ آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں.
بعض مغربی مصنفین ادیان و مذاہب پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسانوں میں تفرقہ اور نفاق کا باعث ہیں اور مذاہب کی راہ میں بہت زیادہ انسانی خون بہایا گیا ہے تاریخ میں بہت سی مذہبی جنگوں کے تزکرہ موجود ہیں
اس کے ذریعے وہ مذاہب کی مذمت کرنا چاہتے ہیں اور اسے جنگ و جدال کا موجب قرار دیتے ہیں اسکے مقابلہ مین یہ امور قابل توجہ ہیں
اولاً ۔جیسا کہ مندرجہ بالا آیت نشاندہی کتی ہے کہ حقیقت میں سچّے پیرو کاروں اور حقیقی مذاہب کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ اختلاف تو پیروان مذہب اور مخالفین مذہب کے درمیان تھا اور یہ جو مختلف مذاہب کے پیرو کاروں میں جنگ و جدال دکھائی دیتا ہے وہ انکی مذہبی تعلیمات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ مذاہب میں تحریف ،ناروا تعصبات اور آسمانی مذاہب میں خرافات کی آمیزش ہے
ثانیاً۔ آج جبکہ بیشتر انسانی معاشروں میں سے مذہب (یا کم از کم اسکی تاثیر ) ختم ہو چکی ہے تو پھر جنگوں میں وحشت ناک ترین صورت میں وسعت کیوں آگئی ہے آج یہ وحشتناک جنگیں دنیا کے وسیع علاقوں میں جاری و ساری ہیں کیا اسکا الزانم بھی مذہب کو دیا جاے ٴ گاپھر یہ تسلیم کر لیا جاے گا کہ انسانوں کا ایکگروہ سرکش نفس ان جنگوں کا حقیقی سر چشمہ ہے ہاں البتہ یہ لوگکبھی مذہب کا بھیس بدل لیتے ہیں کبھی سیاسی و اقتصادی کمکاتب کا لباس پہن لیتے ہیں اور کبھی کسی اور سانچے میں ڈھل کر سامنے آجاتے ہیں اس لئے قسور مذہب کا نہیں ہے یہ سر کش لوگ ہیں جو اصل مجرم ہیں جو حیلے بہانوں سے جنگون کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں
ثالثاً۔ آسمانی مذاہب بالخصوص اسلام نسل پرستی اور قوم پرستی کے مخالف ہیں اس لیے انہوں نے بہت سی نسلی ،جغرافیائی اور قبائلی سرحدوں کو ختم کر دیا ہے اور جن جنگوں کا سر چشمہ یہ امور تھے وہ فطرتاً ختم ہو گئی ہیں یوں جنگوں کا ایک حصہ انسانی زندگی کے مذہب کے زیر اثر آنے کے باعث تاریخ سے حذف ہو گیا ہے علاوہ ازیں صلھ سلامتی ،اچھے اخلاق و اوصاف تمام ٓاسمانی مذا ہب کی توجہ کا مرکز ہیں اور مختلف قوموں میں دشمنیوں اور نفرتوں کو کم کرنے میں میں مذاہب کی اس تعلیم نے گہرا اثر مرتب کیا ہے رابعاً۔مذاہب اسٓسمانی کا ایک ہیغام محروم اور ستم رسیدہ طبقات کی آزادی تھا اسلئے انبیاء اور انکے پیرو کاروں نے جو جنگیں ستمگروں ،ظالموں ، نمرودوں ،اور فرعونوں سے لڑیں وہ در اصل انسانوں کی وٴزادی کے لئے جہاد کا مرتبہ رکھتی ہیں اور یہ مزاہب کے لئے کسی عیب یا نقص کا موجب نہیں بلکہ انکی قوّت و طاقت کا نقطہ ہے ایک طرف مشرکین عرب اور مکہ کے سود خواروں اور دوسری طرف کسریٰ و قیصر سے پیغمبر اکرم کی جنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی
۲۵۴۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناکُمْ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَاٴْتِیَ یَوْمٌ لا بَیْعٌ فیہِ وَ لا خُلَّةٌ وَ لا شَفاعَةٌ وَ الْکافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُون
ترجمہَ
۲۵۴۔اے ایمان والو!جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن ااے ٴ جس میں نہ خرید و فروخت ہو سکتی ہے (کہ تم اپنے لئے سعادت اور سزا سے نجات خرید سکو)اور نہ دوستی (اور عام رفاقتیں وہاں سود بخش ہونگی )اور نہ ہی شفاعت ( کیونکہ تم شفاعت کے لائق نہ ہونگے )اور کافر تو ظالم ہیں ( وہ اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور معاشرہ پر بھی )