Tafseer e Namoona

Topic

											

									  دور کا اشارہ کیوں

										
																									
								

Ayat No : 1-2

: البقرة

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم ۱ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ۲

Translation

الۤمۤ. یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے.

Tafseer

									ہمیں معلوم ہے کہ فقط ”ذلک “لغت عرب میں دور کے لئے اسم اشارہ ہے۔ اس بناء پر ”ذلک الکتاب“ کا مفہوم ہے وہ کتاب۔ حالانکہ یہاں نزدیک کے اسم اشارہ سے استفادہ کیا جانا چاہئے تھا اور” ھذا الکتاب“ ہونا چاہئے تھاکیونکہ قرآن لوگوں کی دسترس میں تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ کبھی بعید کا اسم اشارہ کسی چیز یا شخص کی عظمت کے پیش نظر استعمال کیا جاتا ہے گویا اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ آسمانوں کی بلندی کا حامل ہے۔ فارسی میں بھی ایسی تعبیرات موجود ہیں۔ مثلا کسی عظیم شخصیت کے حضور میں ہم کہتے ہیں :
”اگر آن سرور اجازہ دھند“
یعنی ” اگر وہ سردار اجازت دیں“۔
حالانکہ یہاں ”این سرور“ یعنی یہ سردار کہنا چاہئے۔ یہ صرف بیان عظمت اور مقام بلند کے باعث ہے۔ کئی ایک دوسری آیات میں بھی تلک کا استعمال ہوا ہے اور یہ بھی اشارہ بعید ہے مثلا : تلک آیات الکتاب الحکیم

1. (لقمان، ۲)۔