متکلف کون ہے؟
قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ ۸۴لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ۸۵قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ۸۶إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ ۸۷وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ ۸۸
ارشاد ہوا تو پھر حق یہ ہے اور میں تو حق ہی کہتا ہوں. کہ میں جہنمّ کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا. اور پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا غلط بیان ہوں. یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک نصیحت ہے. اور کچھ دنوں کے بعد تم سب کو اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی.
متکلف کون ہے؟
زیربحث آیات میں بیان ہوا ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے افتخارات میں سے ایک یہ شمار کرتے ہیں کہ میں متکلفین میں سے نہیں ہوں۔ روایات میں بہت زیادہ مباحث "متکلفین" کی نشانیوں اور علامتوں کے بارے میں موجود ہیں۔
ایک حدیث میں جو "جوامع الجامع" میں پیغمبراکرمؐ سے نقل ہوئی ہے ، یہ آیا ہے:
للمتكلف ثلاث علامات؛ ينازع من فوقه، ويتعاطی مالاینال، ويقول
مالا يعلم
متکلف کی تین نشانیاں ہیں۔ ہمیشہ اپنے سے اوپر کے لوگوں سے نزاع اور پرخاش رکھتا ہے، ایسے امور
کے پیچھے لگا رہتا ہے جن تک کبی نہیں پہنچ سکتا ، اور ایسے مطـــالب کے بــارے میں گـفتگــو کرتا ہے
جن سے آگاہی نہیں رکھتا۔ ؎2
یہی مضمون ایک دوسری عبارت کے ساتھ امام صادقؑ سمیت سے لقمان حکیم کے کلمات میں بھی آیا ہے۔
ایک اور حدیث میں پیغمبراکرمؑ کی علیؑ سے وصیتوں میں بیان ہوا ہے۔
للمتكلف ثلاث علامات يتعلق اذا حضر ، و يغتاب اذاغاب ، ويشمت بالمصیبة
متکلف کی تین نشانیاں ہیں:
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎ 1 جوامع الجامع ، المیزان جلد 17 ص 234 کے مطابق۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1- سامنے چاپلوسی کرتا ہے۔
2- پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔
3- اور مصیبت کے وقت شماتت کرنے لگتا ہے
امام صادقؑ سے ایک اور حدیث میں منقول ہے۔
المتكلف مخطي و ان اصاب. و المتكلف لا يستجلب
في عاقبة أمره الا الهوان ، وفي الوقت الا التعب و
العناء والشقاء، والمتكلف ظاهرہ ریاء و باطنه نفاق.
وهما جناحان بهما يطير المتكلف ، و ليس في الجملة
من اخلاق الصالحين، ولا من شعار المتقين المتكلف
في اي باب كما قال الله تعالى لنبيه قال ما اسئلکم عليه
من اجر وماانا من المتكلفين
متکلف خطا کار ہے چاہے وہ ظاہرًا حقیقت تک پہنچ بھی جائے۔ متکلف کو آخرالامر
سوائے پستی اور خواری کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ اور آج بھی سوائے رنج و
تکلیف اور زحمت و ناراحتی کے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
متكلفت کا ظاہر ریا اور اس کا باطن نفاق ہے اور وہ ہمیشہ ان کی دونوں پروں کےساتھ
پرواز کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تکلف صالحین کے اخلاق اورمتقین کے شعار میں سے نہیں ہے چاہے وہ اس بات میں بھی ہو جیسا کہ خدا اپنے پیغمبــــــؐرسے فرماتا ہے : کہہ دے ! میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا اور میں متکلفین میں سے نہیں ہوں۔ ؎2
ان سب روایات سے مجموعی طورپر معلوم ہوتاہے متکلفین وہ لوگ ہیں جوحق و عدالت اور راستی و درستی کے راستے سے قدم باہر رکھتے ہوئے حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں، خیالات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ ایسے امور کی جن کے بارے میں آگاہ نہیں رکھتے ، خبردیتے ہیں اور جن امور کو نہیں جانتے ان میں دخل اندازی کرتے ہیں ۔ ان کا ظاہر و باطن الگ الگ ہے۔ اوران کا حضور غياب متضاد ہیں وہ خودکو رنج و زحمت میں ڈالتے ہیں اور سرپھڑانے اور بدبختی کے سوا کوئی نتیجہ انھیں نہیں ملتا اور پرہزگار اور صالح لوگ" صفت" سے بالکل پاک اور منزہ ہیں۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 نورالثقلین ، جلد 4 ص 473
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پروردگارا! ہمیں توفیق عنایت فرماکہ ہم تكلف، نفاق، تمرد اور سرکشی کے تمام آثار سے دور رہیں۔
خداوندا! ہہیں مخلصین کی صف میں قرار دے جن کی تو اپنی حمایت کے سایہ تلے حفاظت فرماتا ہے اور گمراہ کرنے والا شیطان ان سے مایوس ہے ۔
بارالها! ہمیں وہ بیداری اور سمجھ داری مرحمت فرما کہ اس قرآن عظیم کے مطالب و معانی کو زندہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ہم ساری دنیا کے مسلمانوں کی طاقت و قوت کو اکٹھا کریں اوریک دل اور یک زبان ہو کر تیری راہ میں قدم بڑھائیں اورحق و حقیقت کے دشمنوں کا قلع قمع کر کے رکھ دی ۔
آمین
یارب العالمین
سورة ص کی تفسیر کا اختتام بروز پیر 9 شوال1404 هم