ابلیسں کے بارے میں آخری بات
قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ ۸۴لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ۸۵قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ۸۶إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ ۸۷وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ ۸۸
ارشاد ہوا تو پھر حق یہ ہے اور میں تو حق ہی کہتا ہوں. کہ میں جہنمّ کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا. اور پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا غلط بیان ہوں. یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک نصیحت ہے. اور کچھ دنوں کے بعد تم سب کو اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی.
تفسیر
ابلیسں کے بارے میں آخری بات
یہ آیات جو سورة ص کی آخری آیات ہیں، حقیقت میں اس سورہ کے سارے مضامین کا خلاصہ اور ان تمام مختلف بحثوں کانتیجہ ہیں جواس سورہ میں بیان ہوئی ہیں ۔
پہلے توابلیسں کے جواب میں جس نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ مخلصین کے سواسب انسانوں کو گمراہ کر کے رکھ دے گا ۔ خدااتعالی نے فرمایا ہے : حق کی قسم اور میں حق ہی کہتابوں ( قال فالحق والحق اقول) ۔ ؎1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 اس جملہ کی ترکیب کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ ممکن ہے "الحق" مبتدا ہو اور "قسمی" جو اس کی خبر ہے محزوف ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس کی خبر "قولی بو "فالحق
مولی" یہ احتمال بھی موجود ہےکہ ایک محزوف مبتدا کی خبر ہو " هذا هورالحق " یا "(اناالحق) ہو ۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کہ میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیرو کاروں سے بھردوں گا ( لاملئن جهنم منك وممن تبعك منهم )
جو کچھ ابتداء سورہ سے یہاں کا بیان ہوا ہے وہ سب حق تھا اور جو کچھ ان عظیم پیغمبروں نے ، جن کی زندگی کا ایک گوشہ اس سورہ میں آیا ہے ۔ اس کے لیے جنگ و پیکاراورجہاد کیا ،وہ حق تھا۔ قیامت اور سرکشوں کے دردناک عذاب اور جنات کی انواع واقسام کی نعمتوں کی جو باتیں اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں وہ سب حق تھیں ۔ اس سورہ کا اختتام بھی حق ہے اورخداحق کی قسم کھاتا ہے اورحق بات کرتا ہے کہ جہنم کو شیطان اور اس کے پیروکاروں سے بھر دوں گے تاکہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے بارے میں ابلیس کی اس بات کا ایک قطعی اوردوٹوک جواب دیا جائے کہ جو اس نے قاطعیت کے طور پر کہی تھی ۔ یہ اس لیے ہے تاکہ سب کی ذمہ داری واضح کر دی جائے .
بہرحال یہ دونوں جملے بہت سی تاکیدات پرمشتمل ہیں : دو مرتبہ حق ہونے کی تاکید ہے اور قسم کھائی گئی ہے ۔ اور " لاملئن " بھی نون تاکیید ثقلیہ کے ساتھ ہے اور ان سب پر"اجمعین" کی ایک اور تاکید ہے تاکہ کسی کو معمولی سا بھی شک و شبہ اس بارے میں ہونے پائے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے اور ان کا اس راہ پر چلتے انھیں ہلاکت کے
گھرتک پہنچا دے گا۔
اس کے بعد اس گفتگو کے آخر میں چاراهم مطالب کی طرف مختصر اورواضح عبارتوں کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں فرمایا گیا ہے: کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔ ( قل ما اسئلکم علیه من اجر )۔
اس طرح سے بہانہ جوئی کرنے والوں کے بہانوں کو ختم کردیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ میں تو صرف تمھاری نجات اور سعادت کا خواہاں ہوں ، نہ کوئی مادی اجرتم سے چاہتا ہوں اور نہ کوئی معنوی ، قدردانی ،نہ شکرگزاری، نہ مقام ومنزلت اور نہ حکومت، کیونکہ میرا اجر تو خدا کے ذمہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری آیات۔ مثلا سورۃ سبا کی آیہ 47۔ میں اس کی تریح ہوئی ہے : ان اجری و الاعلى الله
یہ بات خود پیغمبر اکرمؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ جھوٹے مدعی مختلف قسم کے لالچ کے نئے دعوے کرتے ہیں اور ان کا لالچ ان کی کئی باتوں سے بہرصورت واضح و آشکار ہوجاتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں فرمایا گیا ہے : میں متکلفین میں سے نہیں ہوں بلکہ میری باتیں دلیل وہ منطلق کے ساتھ ہوتی ہیں اورکسی قسم کا تکلف ان میں نہیں ہے۔ میری عبارتیں واضح اور میری باتیں ہر قسم کے ابہام اور پیچیدگی سے خالی ہیں (وما أنا من المتکلفين)۔
حقیقت میں پہلا جملہ دعوت کرنے والے کے اوصاف کے بارے میں ہے اور دوسرا جملہ اس کے دعوے کے مطالب کی کیفیت کے متعلق اور واقعًا یہ" آفتاب آمد دلیل آفتاب" کا مصداق ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تیسرے مرحلے میں اس عظیم دعوت اور آسمانی کتاب کے نزول کا اصلی ہدف بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے، یہ قرآن سارے جہان والوں کے لیے نصحیت ، یا ددہانی اور بیداری کا ذریعہ ہے (ان هو الا ذكر للعالمین)
ہاں ! اہم بات یہ ہے کہ لوگ غفلت سے باہر نکلیں اور غوروفکر کریں کیونکہ راستہ واضح ہے اور اس کی نشانیاں آشکار ہیں اورانسان کے اندرایک ایسی پاک و پاکیزہ فطرت ہے جو اس کی راہنمائی کرتی ہے اور راہ توحید وتقوی کی طرف کھینچتی ہے، اہم بات تو بیداری ہے اور پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی اصلی ذمہ داری یہی ہے۔
يہ تعبیربں کی نظر قرآن مجید میں کم نہیں ہے، اس بات کی نشاندہ کرتی ہے کہ انبیاء کی دعوت کے مطالب تمام مراحل ہیں، خداداد فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور یہ دونوں ایک ساتھ مل کر پیش رفت کرتے ہیں۔
چوتھے اور آخری مرحلے میں مخالفین کو مختصر اورمعنی خیز عبارتوں کے ساتھ تہدید بکرتے ہوئے قرآن کہتا ہے تم اس کی خبر ایک مدت کے بعد سن لوگے (ولتعلمن نباہ بعد حين).
ممکن ہے تم ان باتوں کو سنجیدگی سے ساتھ قبول نہ کرو، اور ان کے پاس سے بے اعتنائی کے ساتھ گزر جاؤ ، لیکن بہت جلد میري گفتگو کی صداقت واضح ہوجائے گی ۔ اس جہان میں بھی اسلام و کفرکی جنگ ، اجتمائی اور فکری نفود کے مقام پر اور خدائی عذاب کے موقع پر اور دوسرے جہان میں بھی خدا کا دردناک عذاب دیکھ لو گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ اپنے موقع پر اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرلو گے۔ مختصریہ ہے کہ خدائی تازیانہ آمادہ ہے اور بہت جلد مستکبرین اور ظالموں پرسے گا۔