Tafseer e Namoona

Topic

											

									  میں ایک نذیر ہوں

										
																									
								

Ayat No : 65-70

: ص

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۶۵رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ ۶۶قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ ۶۷أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ ۶۸مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ ۶۹إِنْ يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ ۷۰

Translation

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں اور خدائے واحد و قہار کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے. وہی آسمان و زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کا پروردگار اور صاحبِ عزت اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے. کہہ دیجئے کہ یہ قرآن بہت بڑی خبر ہے. تم اس سے اعراض کئے ہوئے ہو. مجھے کیا علم ہوتا کہ عالم بالا میں کیا بحث ہورہی تھی. میری طرف تو صرف یہ وحی آتی ہے کہ میں ایک کھلا ہوا عذاب الہٰی سے ڈرانے والا انسان ہوں.

Tafseer

									  تفسیر
                  میں ایک نذیر ہوں 
 چونکہ تمام گزشتہ بحث، چاہے ان میں دوزخیوں کے دردناک عذاب سے متعلق گفتگوتھی یا گزشتہ گنہگار اقوام کے دنیاوی عذاب کی متعلق بحث تھی، سب کی سب مشرکین، سرکشوں اور ظالموں کے لیے انذار وتہدید کا پہلو رکھتی تھی۔ زیربحث آیات میں اسی مسئلے کو جاری رکھتے ہوئے قرآن کہتا ہے : کہہ دے کہ میں تو صرف ایک انذارکننده (ڈرانے والا) ہوں ۔ ( قل انما انا منذر)۔ 
 یہ ٹھیک ہے کہ پیغمبر بشارت دینے والا بھی ہوتا ہے اور قرآن مجید کی آیات دونوں معانی پر ناطق ہیں لیکن چونکہ بشارت تو مومنین کے لیے ہوتی ہے اور انذارمشرکین و مفسدین کے لیے اور یہاں روئے سخن دوسرے گروہ کی طرف ہے ،لہذاصرف انذار کا ذکر ہوا ہے۔ 
 اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے ، کوئی معبود خداوند یگانہ و قہار کے علاوہ نہیں ہے۔ (وما من اله الا الله الواحد القهار). 
 اس کے قہر کا ذکر بھی اسی بنا پر ہے تاکہ کوئی اس کے لطف و کرم سے مغرورنہ ہوجائے اور خود کو اس کے قہر سے مامون نہ سمجھ لےاور کفرو گناہ کے گرداب میں غوطہ زن نہ ہوجائے۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اور بلافاصلہ پروردگار کی توحید الوہیت و عبارت کی دلیل کے طور پر مزیدفرمایا گیا ہے: وہی تو ہے جو آسمانوں، زمین اور ان دونوں درمیان کی ہر چیز کا پروردگار ہے ۔ وی خدا جوعزیز وغفارہے (رب السماوات والأرض وما بينهما العزيز الغفار)۔ 
 درحقیقت اس آیہ میں خدا کی صفات میں سے تین اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ جن میں سے ہرایک ، ایک مقصد کو ثابت کرنے کے لیے ہے۔ 
 پہلا مسئلہ تمام عالم ہستی کے لیے اس کی "ربوبیت" کا مسئلہ ہے وہ اس سارے جہان کا مالک ہے۔ ایسا مالک جوان کی تدبیرو تربیت کرتا ہے۔ ایسی ہستی ہی عبادت کے لائق ہے نہ کہ وہ بت جن کے پاس سوئی کی نوک کے برابری اپنا کچھ نہیں۔ 
 دوسرمسئلہ اس کی "عزت" کا مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ "عزیز" لغوی معنی کے لحاظ سے اس شخص کوکہا جاتا ہے کہ جس  پر کوئی غالب نہ آسکے اور جس چیز کا وہ ارادہ کرے وہ ہوجائے ، دوسرے لفظوں میں وہ ہمیشہ غالب ہےاور کبھی بھی مغلوب نہیں ہوتا۔ 
 جو ایسا ہو ا س کی قدرت کے پنجے سے نکل بھاگنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟ اور اس کے عذاب سے کیسے نجات مل سکتی ہے؟ 
 تیسری صفت مقام " غفاريت " اور اس کی بکثرت بخشش ہے جو بازگشت اوراس کی طرف لوٹنے کے دروازے گہنگاروں کے سامنے کھولے رکھتا ہے اوراپنی رحت کی بارش ان پر برساتا رہتا ہے تاکہ وہ یہ تصور نہ کربیٹھیں کہ اگر وہ قہار و عزیز ہے توپھراس کا مفهوم بندوں کے سامنے رحمت و توبہ کے دروازے بند کرنا ہے۔ 
 حقیقت میں ایک صفت بیان خوف ہے اور دوسری صفت بیان رجاء ہے کیونکہ ان دونوں حالتوں کے موازنے کے بغیر انسان کاارتقاء موت تکامل ممکن نہیں ۔ یا انسان غرور و غفلت میں گرفتار ہوجاتا ہے یا ناامیدی کے گرداب میں غرق ہو جاتا ہے۔ 
 دوسرے لفظوں میں اس کی عزیز وغفار کے سا توصیت اس کی الوہیت کی ایک اور دلیل ہے کیونکہ صرف وہی ہستی پرستش و عبادت کے لائق ہے جو ربوبیت کے علاوہ سزا دینے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور سزا دینے پر قدرت کے علاوہ اس کی رحمت ومغفرت کے دروازے بھی کھلے ہوئے ہوں۔ 
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ سے خطاب ہے اور ایک مختصر مگرہلا دینے والے انداز میں فرمایا گیا ہے : کہہ دے کہ یہ ایک بہت بڑی خبر ہے۔ (قل هو نبؤاعظیم)۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 کہ جس سے تم منہ پھیرے ہوئے ہو (انتم عته معرضون) - 
 یہ کون سی خبر ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اسے عظیم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید ؟ پیغمبر کی رسالت ؟ قیامت اور مومنین وکفار کا انجام ؟ توحید و یگانگی خدا ؟ یا یہ سب کی سب؟ 
 چونکہ قرآن ان سب امور پر مشتمل ہے اور ان سب کا جامع ہے اور مشرکین کی روگردانی بھی اسی سے تھی، اس لیے زیادہ مناسب وہی پہلا معنی یعنی قران  ہے۔ 
 ہاں یہ عظیم آسمانی کتاب ایک بڑی خبر ہے جو تمام عالم ہستی جتنی عظمت رکھتی ہے ، کیونکہ یہ اس جہان کے خالق ، خالق عزیز وغفار اور واحد و قہار کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ وہ خبر جس کی عظمت کو ایک بہت بڑے گروہ نے اس کے نزول کے وقت نہیں سمجھا، بعض نے اس کا مذاق اڑایا اور بعض نے اسے جادو کہا اور ایک گروہ نے اسے شاعری قرار دیا۔ لیکن زیادہ دیر نہیں گزری کہ اس "نباءاعظیم" نے اپنے باطن کو ظاہر کیا اور تاریخ بشریت کی راہ کو بدل کر رکھ دیا ۔ وسیع عالم ہستی پر اپنا سایہ فگن ہوگئی اوراس نے اپنے عظیم اور درخشاں تمدن  کوہر ہر میدان میں پھیلا دیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس" نباعظیم کا اعلان اس مکی سورہ میں ہوا ہے ، ایسے زمانے میں جبکہ مسلمان ظاہر 
انتہائي ضعف و ناتوانی میں تھے اور کامیابی و نجات کے راستے ان کے سامنے بند تھے۔ 
 یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی یہ عظیم خبر دنیا والوں پرـــــــــ بلکہ خود مسلمانوں پربھی ـــــــــــکامل طور پر واضح نہیں ہے ،اورمستقبل ہی اس کی نشاندہی کرے گا۔ 
 قران کی یہ گفتگو کہ "تم اس سے منہ پھیرے ہوئے ہو"۔ ابھی تک صادق اور سچی ہے اور مسلمانوں کویہی اعراض اس بات کا سبب بنا ہے کہ فیض الٰہی کے اس جوش مارنے والے چشمے سے پورے طور سیراب نہیں ہو سکے اورصحیح طور پراس کے انوار کے پر تو میں آگے نہیں  بڑھ سکے اور فخروشرف کی چوٹیوں کو سر نہیں کر سکے۔ 
 اس کے بعد حضرت آدم کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں انسان کے مرتبے کی اس حدتک بلندی کا ذکر ہے کہ فرشتوں نے اس کے سامنے سجدہ کیاـــــــــ 
تمہی کے طور پر فرمایا گیا ہے : مجھے ملا اعلٰی اور عالم بالا کے فرشتوں کے بارے میں کچھ خبر نہیں (جب کہ وہ آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے) (ما كان لي من علم بالملا الأعلى اذيختصمون)۔ 
 میری آگاہی صرف وحی کے ذریعے سے ہے اور مجھے تو صرف یہ وحی کی جاتی ہے میں ایک واضح انذارکنندہ ہوں (ان يوحي الى إلا انماانا نذير مبين)۔ 
 اگرچہ فرشتے پروردگار کے ساتھ کوئی جھگڑا اور نزاع نہیں کر رہے تھے ، صرف اتنی سی بات تھی کہ جب خدا نے ان سے یہ کہا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانا چاہتا ہوں "تو انھوں نے باتیں شروع کر دی اور عرض کیا : " کیا تو ایسے کو بنانا چاہتا بے جو فسادوخونریزی کرے گا؟ تو ان کے جواب میں فرمایا : "جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے"۔(بــقره ــــــــــــ 30)۔ توان کی انھیں باتوں پر"مخاصمہ" کا اطلاق ہوا ہے، جو ایک مجازی اطلاق ہے اور جیسا کہ ہم نے اشارتًابیان کیا ہے کہ یہ حقیقت میں بعد والی آیات کے لیے جو آدم کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ایک مقدمہ اور تمہیدہے ۔
 یہ احتمال بھی ہے کہ "ملا اعلٰی" ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں شیطان تک بھی شامل ہے ، کیونکہ اس وقت شیطان بھی فرشتوں کے زمرے میں تھا اور خدا کے ساتھ مخاصمت کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا ، اور اعتراض کرنے لگا اور اس بنا پر ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ خداوندی ہوگیا ، لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے۔ 
 متعدد روایات میں جو شیعہ اور اہل سنت کے ذرائع سے نقل ہوئی ہیں ، یہ بیان کیاگیا ہے کہ پیغمبراکرمؐ نے اپنے صحاب میں سے ایک سے پو چھا :۔ 
  أتدري فيما يختصم الملأ الأعلٰى ؟ 
  کیا تو جانتا ہے کہ عالم بالا کے فرشتے کس چیز کے بارے میں بحث و گفتگو کرتےہیں؟ 
 اس نے عرض کیا : نہیں۔ 
 توآپؐ نے فرمایا : 
  اختصموا في الكفارات والدرجات ، فأما الكتارات فاصباغ الوضوء في 
  السيرات ، ونقل الاقدام الى الجماعات،وانتظارالصلوة بعدالصلوة ،واما
  الدرجات فافشاء السلام، واطعام الطعام والصلاة في الليل والناس نيام 
  وہ کفارات  (وہ کام جو گناہوں کی تلافی کرتے ہیں) اور درجات ( وہ چیزیں جو انسان کے درجات
  میں اضافے کا باعث بنتی ہیں) کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ رہے کفارات تو وہ موسم سرما کی
   سردی میں بھرے پانی کے ساتھ وضو کرنا اور نماز با جماعت کے لیے قدم بڑھانا ، اور ایک نماز 
  کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ہے اور "درجات" بہت زیادہ سلام کرنا،دوسروں کوکھانا کھلانا 
  اور رات کو اس وقت نماز پڑھنا جبکہ لوگ سورہے ہوں۔ ؎1 
 لیکن ا س حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ یہ زیر بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں وار د ہوئی ہے ،اگرچہ اس کی تعبیرات زیربحث آیت کی تعبیروں کی طرح ہیں۔ بہرحال اس حدیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں "مخصہ " سے مراد صرف گفتگوآدمیوں کے اعمال کے بارے میں ہے اور ان کاموں کے بارے میں جوگناہوں کا
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    مجمع البیان ، زیر نحث آیت کے ذیل میں ۔ یہی حدیث تفسیر درالمنشور میں کئی ایک حوالوں سے متعدد اصحاب رسولؐ سے بھی کچھ اختلاف کے ساتھ منقول ہوئی ہے۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کفارہ بنتے ہیں اور انسان کے درجارت میں اضافہ کرتے ہیں۔ شاید ان کی گفتگو ان اعمال کی تعداد کے بارے میں ہے جوان فضائل کا سرچشمہ بنتے ہیں یا ان درجات کی حد اور میعار کاتعین کرنے میں جوان اعمال سے حاصل ہوتے ہیں اور اس طرح سے آیت کی ایک تیسری تفسیر سامنے آتی ہے جو کئی لحاظ سے مناسب ہے لیکن یہ آینده والی آیات کے ساتھ کوئی زیادہ مناسب نہیں رکھتی اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ ممکن ہے :یہ حدیث فرشتوں کی کسی دوسری گفتگو کے بارے میں ہو نہ کہ اس گفتگو کے بارےمیں جو ان آیات کےساتھ مربوط ہے  
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پیغمبر اکرمؑ کا عدم علم اس معنی میں ہے کہ میں اس سلسلے میں اپنی طرف سے نہیں جانتا، صرف وپی کچھ جانتا ہوں جووحی کے ذریعے مجھ پر نازل ہوتا ہے۔