اصحاب دوزخ کی دشمنی
وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ ۶۲أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ۶۳إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ ۶۴
پھر خود ہی کہیں گے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں شریر لوگوں میں شمار کرتے تھے. ہم نے ناحق ان کا مذاق اڑایا تھا یا اب ہماری نگاہیں ان کی طرف سے پلٹ گئی ہیں. یہ اہل جہنمّ کا باہمی جھگڑا ایک امر برحق ہے.
تفسیر
اصحاب دوزخ کی دشمنی
یہ آیات دوزخیوں کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے ان کی ایک گفتگو بیان کرتی ہیں جس میں سے ان کے گہرے اور جانکاہ تأسف اور ایک روحانی و جان فرسا حالت کی ترجمانی ہوتی ہے۔
قرآن کہتا ہے: ضلالت کے سردار جب دوزخ میں اپنے اطراف میں دیکھیں گے تو کہیں گے کہ ہم ان لوگوں کو جنھیں ہم اشرارمیں شمار کرتے تھے یہاں کیوں نہیں دیکھتے (وقالوامالنا لانری رجا لأكتا نعدهم من الاشرار ).
ہاں! ابوجہل اور ابولہب جیسے افراد جب یہ دیکھیں گے کہ دوزخ میں عمار، یاسر، خباب، صہیب اور بلال جیسے افراد کا کوئی نام نشان نہیں ہے ، تو وہ اپنے دل میں سوچیں گے اور ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ یہ لوگ کہاں چلے گئے؟
ہم تو ان لوگوں کوخلل ڈالنے والے، زمین میں فساد کرنے والے، اشرارواوباش سمجھتے تھے جومعاشرے کے آرام و سکون کو تباوبرباد کرنے اور ہمارے بزرگوں کے اختیارات کوختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہماری راہ ہی بالکل غلط تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا ہم نے ان کا مذاق اڑایا تھا یا وہ اس قدر حقیرتھے کہ ہماری آنکھیں انھیں نہیں دیکھتیں (اتخذناهم سخربا ام زاغت عنهم الابصار) ۔ ؎1
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 قابل توجہ بات یہ ہے کہ "زاغت" جو "زیغ " کے مادہ سے ہے اور حق و صداقت سے انحراف کے معنی میں آتا ہے یہاں اس کی آنکھ کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ آنکھ والوں کی طرف اوریہ مطالب میں مبالغہ کے لیے ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہاں! ہم ان عظیم المرتبہ انسانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور شرار ہونے کا لیبل ان پر لگاتے تھے اوربعض اوقات توہم انھیں اس سے بھی پست سمجھتے تھے۔ انھیں ایسے حقیر اور ذلیل جانتے تھے جوبالکل آنکھوں میں جچتے ہی نہیں تھے لیکن اب معلوم ہواکہ ہواوہوس اور جہالت وغرور نے ہماری آنکھ پر پردہ ڈال رکھا تھا ، وہ تو مقربان بارگاہ خدا تھے اور اس وقت بہشت بریں ان کا مسکن ہے۔
مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی تفسیر ایک اور احتمال ذکرکیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمسخرتو دنیا کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے اور "ام زاغت عنهم الابصار" - کا جملہ دوزخ کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے یعنی یہاں جاری نزدیک بین آنکھ اس دھوئیں اور آگ کے شعلوں کے درمیان انھیں نہیں دیکھ سکئی ، البتہ پہلا معنی زیادہ صحیح نظر آتا ہے.
یہ نکته قابل توجہ ہے کہ حقائق کا ادراک نہ کرنے کے عوامل میں سے ایک مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لبینا اور حقائق کا مذاق اڑانا ہے۔ ہمیشہ سنجیدہ ارادے کے ساتھ مسائل کی تحقیق کرنا چاہیے تاکہ حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد دوزخیوں کے درمیان جو باتیں ہوں گی انھیں خلاصے کے طور پر اور جوکچھ گزر چکا ہے اس پر تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: بے شک یہ بات حق اور ایک حقیقت ہے کہ دوزخی مخاصمانہ گفتگو کریں کے (ات ذالك لحق تخاصم اهل النار) ؎1
دوزخی اس جہان میں بھی دشمنی اور نزاع میں گرفتار ہیں اور پرخاش ، نزاع اور جدال کی روح ان پر حاکم ہے، اور ہرروز کسی نہ کسی سے دست و گربیاں اور گلوگیر ہوتے رہتے ہیں ، اور قیامت میں چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہوجانے کا دن ہے جو کچھ ان کے اندر ہو گا وہ ظاہر ہو جائے گا اور جہنم میں ایک دوسرے کی جان کے در پے ہوجائیں گے ، کل کے مرید آج کے مخالف ہوجائیں گئے، اورصرف ایمان کے ، صرف ایمان و توحید کا راستہ اس جہان میں بھی اور اسی جہان میں بھی وحدت و پاکیزگی کا راستہ ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ بہشتی توتختوں پر تکیہ لگائے ہوئے دوستانہ گفتگو میں مشغول ہوں گےــــــــ جیساکہ قران کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے ــــــــــــ جب کہ دوزخی جنگ وجدال میں مشغول ہوں گے جبکہ وہ تو خودایک نعمت اورعظیم انعام ہے اور یہ ایک دردناک عذاب ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک نکتہ
ایک حدیث میں امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا :
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 " تخاصم اهل النار" ذالك " کا بیان ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
خدا نے تم مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کو قرآن میں یاد کیا ہے جبکہ تمھارے دشمن جہنم کی
آگ میں کہیں گے کہ ہم یہاں ان لوگوں کو جنہیں ہم اشرار میں شمار کرتے تھے کیوں نہیں دیکھتے ؟
کیا ہم نے ان کا مذاق اڑایا تھا یا سخت حقارت کی وجہ سےہمھاری آنکھوں میں نہیں جچتے تھے کہ
خدا کی قسم ان افراد سے مراد تم ہو جنھیں ایک گروہ اشرارسمجھتا ہے ، لیکن خدا کی قسم! جنت میں تم
شادمان اور مسرور ہوگے جبکہ دوزخی جہنم میں تمھارے خیال میں سرگرداں ہوں گے ۔ ؎1
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 یہ روایت روضۂکافی سے نورالثقلین جلد 4 ص 467 پرنقل کی گئی ہے ۔