6- بہشت و دوزخ
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ۸۱إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۸۲فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۸۳
تو کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوباہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے. اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے. پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے.
6- بہشت و دوزخ :
بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کا عالم مکمل طور پر اسی جہان کے مشابہ ہے البتہ زیادہ کامل اور زیادہ عمده شکل میں ۔
لیکن ہمارے پاس بہت سے ایسے قرائن موجود ہیں کہ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس جہان اور اس جہان کے درمیان کیفیت و کمیت کے لحاظ سے بہت زیادہ فاصلہ ہے۔
یہاں تک کہ اگر ہم اس فاصلے کو چھوٹے سے جنین کے عالم کی اس وسیع دنیا کے درمیانی فاصلے سے تشبیہ دیں تو پھر بھی کامل موازنہ نہیں ہوگا۔
بعض روایات کی صراحت کے مطابق وہاں ایسی چیزیں ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے ، یہاں تک کہ کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ آئی ہوں گی۔ لہذا | قرآن مجید کہتا ہے:
فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة عين
کوئی انسان نہیں جانتا کہ کیسی کیسی چیزیں ۔۔۔۔ کہ جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہیں ۔
اس کے لیے پنہاں رکھی گئی ہیں"۔ (الم سجدہ ۔۔۔۔۔۔ 17)۔
اس جہان پر حاکم نظام اس عالم پر حاکم نظام سے مکمل طور پر مختلف ہے یہاں افراد بطور گواہ عدالت میں جاتے ہیں لیکن وہاں ہاتھ اور پاؤں یہاں تک کہ بدن کی جلد بھی گواہی دے گی :
اليوم نختم علٰى افوا هھم و تكلمنا آیدیهم و تشھد ارجلھم
بما كانوا يكسبون (يٰسین ۔۔۔۔۔۔۔۔ 65)۔
وقالوا لجلود هم لم شہدتم علينا قالوا انطقنا الله الذي
انطق كل شيء (حم سجدہ ۔۔۔۔۔۔ 21)۔
بہرحال دوسرے جہان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے وہ صرف دور کی ایک بات ہے کہ جس قدر ہماری سمجھ میں آتی ہے اور اصولی طور یہ ہماری الف باء اور اس جہان میں ہماری فکری صلاحیت اس کی حقیقی تعریف پر قادر نہیں ہے اور اسی سے جنت و دوزخ اور ان کی نعمتوں اور عذابوں کی کیفیت کے بارے میں بھی جواب دیا جاسکے گا۔
ہم تو اسی قدر جانتے ہیں کہ جنت تو انواع و اقسام کی خدائی نعمتوں کا مرکز ہے ، چاہے وہ مادی ہوں یا روحانی اور دوزخ دونوں جہات کے شدید ترین عذابوں کا مرکز ہے۔
لیکن ان دونوں کی جزئیات کے بارے میں قرآن مجید نے کچھ اشارے بیان کیے ہیں کہ جن پرہم ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کی تفصیلات جب تک کوئی نہ دیکھے ، نہیں جانتا۔
جنت و دوزخ کے وجود کے بارے میں اور یہ کہ وہ کہاں ہیں ، ہم نے نسبتًا تفصیلی بحث سور آل عمران کی آیہ 133 کے ذیل میں دوسری جلد میں کی ہے۔
اسی طرح عالم قیامت میں جزا و سزا ، اور "تجسم اعمال" اور "نامۂ اعمال" کے مسئلے کے بارے میں ہم جلد دوم سوره آل عمران کی آیہ 30 کے ذیل میں اور جلد 12 سورہ کہف کی آیہ 49 کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں۔
" ان تمام باتوں کے علاوہ دوسری مختلف بحثیں متعلقہ آیات کے ذیل میں ، خصوصًا قرآن مجید کی آخری سورتوں میں انشاء اللہ قیامت کی خصوصیات کے بارے میں بیان ہوں گی ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پروردگارا ! اس پر خوف وخطر دن میں ، اس عظیم قیامت اور عدالت میں ہمیں اپنے لطف وکرم سے امن و سکون بخشا۔
خداوندا ! اگر فیصلہ اعمال کے معیار پر ہو تو ہمارا ہاتھ خالی ہے ۔ اپنے فضل و کرم کے ترازو سے ہماری ناچیز نیکیوں کو تولنا اور اپنی رحمت و غفران سے ہماری برائیوں پر پردہ ڈال دینا۔
بارالٰہا ! ایسا کرنا کہ انجام کار تو بھی ہم سے خوش ہو اور ہم بھی تیری بارگاہ میں کامیاب و رستگار ہوں ، آمین یارب العالمین۔
تفسیر نمونہ کی جلد 18 کا اختتام
8 رمضان المبارک 1404 ہجری
تفسير نمونہ کی اٹھارویں جلد کا ترجمہ از قلم سید صفد حسین نجفی
فرزند سید غلام سرور نقوی مرحوم
بروز اتوار
بوقت دن کے 12 بج کر 51 منٹ
بتاریخ 22 شوال 1406ھ
بمطابق 29 جون 1986ء
برمکان ولایت خاں صاحب مانچسٹر، یو ۔ کے
اختتام پذیر ہوا۔
الحمد لله اولا و أخرًا والصلوة على النبي
وأله ابدًا دائمًا ۔
سید صفدر حسین نجفی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ