وه هرچیزکا مالک وحاکم ھے
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ۸۱إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ۸۲فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۸۳
تو کیا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوباہ پیدا کردے یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے. اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا اور وہ شے ہوجاتی ہے. پس پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس کے ہاتھوں میں ہر شے کا اقتدار ہے اور تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹا کر لے جائے جاؤ گے.
تفسیر
وه هرچیزکا مالک وحاکم ھے
گزشتہ آیات میں خلقت اول اور سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے معاد کے دلائل کا ذکر ہے۔ اب پہلی زیر بحث آیت میں ایک اور حوالے سے اس مسئلے کو بیان کیا گیا اور وہ خدا کی بے پایاں قدرت کا بیان ہے۔
ارشار ہوتا ہے:"کیا وہ ہستی کہ جس نے آسمانون اور زمین کو ان تمام عظمت ، عجائبات اور حیرت انگیز نظاموں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس بات پر قادرنہیں ہے کہ ان خاک شدہ انسانوں کے مانند نئی تخلیق کرے (اور انہیں ایک نئی زندگی کی طرف لوٹا دے) ہاں ! وہ ایسا کرسکتا ہے اور وہ آگاہ و دانا خلاق ہے"۔ (اوليس الذي خلق السماوات والارض بقادرعلٰى ان يخلق مثلهم بلٰی وهو الخلاق العليم)۔
یہ جملہ کہ جو استفهام انکاری سے شروع ہوا ہے ، حقیقت میں بیدار عقل و وجدان کے سامنے ایک سوال پیش کرتا ہے کہ کیا تم اس عظیم انسان کی طرف نہیں دیکھتے کہ جو عجیب و غریب ثوابت و سیارات اورمنظومات اور کہکشاؤں کا حامل ہے۔ جس کا ہرگوشہ ایک وسیع دنیا ہے ۔ تو وہ ذات کہ جو ان عظیم اور منظم عوالم کی خلقت پر قادر ہے ، کیسے ممکن ہے کہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر نہ ہو؟
اس سوال کا جواب چونکہ ہر بیدار انسان کے قلب و روح میں موجود ہے ، لہذا وہ جواب کا انتظار نہیں کرتا بلکہ بلا فاصلہ کہتا ہے : ہاں ! وہ اس قسم کی قدرت رکھتا ہے. اس کے بعد خدا کی دو عظیم صفات کا ذکر ہے کہ جو اس مسئلے میں قابل توجہ ہیں ، یعنی صفت خلاقیت اور اس کا بے پایاں علم ۔ یہ حقیقت میں گزشتہ بات کی ایک دلیل ہے کہ اگر تمهارا شک و شبہ خلقت کے بارے میں اس کی قدرت کی وجہ سے ہے تو وہ خلاق ہے (توجہ رہے کہ خلاق مبالغے کا صیغہ ہے)۔
نیز اگر ان ذرات کو جمع کرنا علم و دانش کا محتاج ہے تو وہ ہر لحاظ سے عالم وآگاہ ہے۔
"مثلهم" کی ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ اس بارے میں مفسرین نے کئی احتمال ذکر کیے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہے کہ یہ ضمیر انسانوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی آسمانوں اور زمین کا خالق اس بات پر قادر ہے کہ وہ انسانوں کی مثل پیدا کردے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے یہ کیوں نہ فرمایا کہ وہ خود از سر نو پیدا کرنے پرقادر ہے ، بلکہ یہ فرمایا کہ "ان کی مثل" پیدا کرسکتا ہے۔
اس سوال کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ جب انسان کا بدن مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کی اپنی شکل و صورت باقی نہیں رہتی اور قیامت کے دن جو کچھ لوٹے گا وہ اس کا پہلا مواد ہی ہوگا کہ جو وہ پہلے کی سی صورت اختیار کرلے گا ۔ یعنی مادہ تو وہی ہوگا لیکن شکل و صورت گزشتہ صورت کی مثل ہوگی۔ کیونکہ عین اسی صورت کا خصوصًا قید زمانی کے ساتھ لوٹنا ممکن نہیں ہے خصوصًا جبکہ ہم جانتے ہیں کہ قیامت میں تمام انسان اپنی تمام گزشتہ کیفیات کے ساتھ محشورنہیں ہوں گے۔ مثلًا بوڑھے جوان کی شکل میں اور معلول صحیح و سالم صورت میں ہوں گے۔
دوسرے لفظوں میں انسانوں کا بدن اس اینٹ کے مانند ہے جو ریزہ ریزہ ہوکر پراگندہ ہوجائے اور اس کی مٹی کو جمع کرلیاجائے اور دوبارہ اس کا گآرا بناکر سانچے میں ڈال دیا جائے اور اس سے نئی اینٹ بنالی جائے۔
یہ نئی اینٹ ایک حیثیت سے بعینہ وہی ہے اور ایک لحاظ سے اس کی مثل ہے (اس کا مادہ تو وہی ہے لیکن اس کی شکل و صورت پہلی صورت کی مثل و مانند ہے) (غورکیجئےگا)۔ ؎1
بعد والی آیت اس حقیقت پرایک تاکید ہے کہ اس کے ارادہ اور قدرت کے سامنے ہر قسم کی ایجاد سہل و آسان ہے ، اس کے لیے عظیم آسمانوں اور کره خاکی کا ایجاد کرنا اور ایک چھوٹے سے کیڑے کی ایجاد برابر و یکساں ہے، فرماتا ہے : اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہوجا ، تو وہ فورًا ہوجاتی ہے" ، جیسا کہ خدا نے چاہا ہے (انما امره اذا اراد شيئا ان يقول له کن فیکون)۔
تمام چیزیں اس کے ایک اشارے اور فرمان کے ساتھ وابستہ ہیں تو جو اس قسم کی قدرت کا مالک ہو ، کیا اس کے بارے میں اس بات کی کوئی گنجائش ہے کہ اس کے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق اس کی قدرت میں شک کیا جائے؟
یہ بات واضح ہے کہ یہاں امرالہی لفظی امر کے معنی میں نہیں ہے ، اسی طرح لفظ "کن" (ہوجا) بھی ایسا نہیں کہ جسے خدا لفظ کی صورت میں ادا کرے کیونکہ نہ وہ کوئی لفظ بولتا ہے اور نہ ہی وہ الفاظ کا محتاج بلکہ اس سے مراد اس کا کوئی چیز کے ایجاد تخلیق کرنے کا ارادہ کرنا ہے۔ نیز لفظ "کن" اس بنا پر ہے کہ اس سے زیاد مختصر زیادہ چھوٹی اور زیادہ سریع تعبیر کا تصور نہیں ہوسکتا۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بعض مفسرین نے "مثلھم" کی ضمیر کو آسمانوں اور زمین کی طرف پلٹایا ہے اور کہا ہے کہ ذوي العقول کی ضمیرجمع کا انتخاب اسی بناء پرہے کہ زمین و آسمان میں بہت سے ذوي العقول موجود ہیں - بعض دوسرے مفسرین نے "مثل" کی تعبیر کو اس بات پہ شاہد بنایا ہے کہ عین اسی جسم اور اسی مواد کا لوٹنا کہ جو دنیا میں تھا ، ضروری نہیں ہے کیونکہ انسان کی شخصیت اس کی روح کے ساتھ ہے اور یہ روح جس مادہ کے ساتھ بھی تعلق اختیار کرے گی وہ انسان کی مثل ہوگی ، لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہیئے کہ یہ بات آیات قرآني حتی کہ زیر بحث آیات کے ساتھ بھی بالکل ہم آہنگ نہیں ہے ۔ کیونکہ قرآن صراحت کے ساتھ انہیں آیات میں کہتا ہے کہ خدا انہی بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا اور انہیں لباس حیات پہنائے گا نہ کہ دوسرے مواد کو- (غور کیجئے گا)۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہاں! جونہی وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے وہ فورًا موجود ہوتی ہے ۔
دوسرے لفظوں میں جس وقت خدا کسی چیز کا ارادہ کرے ، تو وہ بلافاصلہ وجود پاجاتی ہے اس طرح سے کہ اس کے "ارادہ" اور "اشیاء کے وجود" کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا۔ اس بناء پر "امر" ، "قوال اور "کن" کے الفاظ سب کے سب خلق و ایجاد کے مسئلے کی ایک توضیح ہیں اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے یہاں امرلفظی اور "کاف و نون" کا کوئی لفظ ، بات یا قول بیان نہیں ہوا۔ یہ سب کے سب اراده الٰہی کے بعد اشیاء کے تیزی اور سرعت کے ساتھ وجود پانے کو بیان کرتے ہیں، اسے الفاظ و کلمات کی کیا حاجت ہے اصولی طور پر کسی چیز کو ایجاد کرنے کے لیے اس کی مشیت کے بعدہ الفاظ کی وساطت بے معنی ہے
زیادہ واضح تعبیر میں ، خدا کے افعال میں دو مرحلوں سے زیادہ کا وجود نہیں ہے ، مرحلہ ارادہ اور مرحلہ ایجاد مذکورہ بالا آیت میں دوسرا مرحلہ امر و قول اور لفظ "کن" کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔
بعض قدیم مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں قول اور ایک بات ضرور ہے اور اسے وہ ایک ناشناختہ اسرار میں سے سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ حقیقت میں الفاظ کے پیچ و خم میں الجھ گئے ہیں اور ان کے مفہوم ومطلب سے بے خبر رہے ہیں اور انہوں نے خدائی کاموں کو اپنے اوپر قیاس کرلیا ہے۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں کیا خوب فرمایا ہے :
يقول لما أراد لما كونه کن فیکون ؎1 لابصوت يقرع ولا بنداء
یسمع و انما کلامه سبحانه فعل منہ انشأه و مثله لم یکن من قبل ذالک
کاٹنا ، و لو كان قديما لكان ثانيا ۔
"وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے ، اس سے کہتا ہے ہوجا تو وہ بلاتاخیر ہوجا تی ہے لیکن
اس کا کلام نہ تو ایسی ندا ہے کہ جو کانوں سے ٹکرائے اور نہ ہی ایسی ندا کہ جوسنی جائے بلکہ خدا کی بات
وہی اس کا فعل ہے کہ جسے وہ ایجاد کرتا ہے اور اس سے پہلے کوئی بھی چیز موجود نہیں تھی اور اگر ہوتی
تو وہ دوسرا خدا شمار ہوتی ۔ ؎2
اس سے قطع نظر اگر کوئی لفظ درمیان میں ہو تو اس کی دو صورتیں ہوں گی:
پہلی صورت یہ ہے کہ یہ لفظ خود مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اور اس کو ایجاد کرنے کے لیے
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 نہج البلاغہ کے بعض نسخوں میں مثلًا "منہاج البرعۃ" میں "لما اراد" کی تعبیر ہے - تفسير نورالثقلین میں بھی نہج البلاغہ سے اسی طرح نقل ہوا ہے لیکن دوسرے نسخوں میں مثلاً ابن ابى الحدید ، ابن مبثم اورصبحی صالح کے نسخہ میں "لمن اراد" آیا ہے لیکن مناسب وہی پہلا نسخہ ہے۔
؎2 نہج البلاغہ خطبہ 186-
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک دوسرے "کن" کی ضرورت ہوگی اور اس بات کی اس دوسرے "کن" کے بارے میں بھی تکرار ہوگی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ہرخطاب کے لیے ایک مخاطب کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ابھی تک کوئی چیز موجود ہی نہیں تو خدا "کُن" کہہ کر اسے کس طرح مخاطب کرے گا ، کیا معدوم سے خطاب ہو سکتا ہے؟
قرآن کی دوسری آیات میں یہی معنی دوسرے الفاظ میں آیا ہے ۔ مثلا سورۂ بقرہ کی آیہ 117 میں ہے:
واذا قضٰی امرًا فانًما يقول له کن فیکون
"جس وقت اس کی قضا اور حکم کسی چیز کے بارے میں ہوتا ہے تو وہ اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہوجا تو وه بلا فاصلہ ہو جاتی ہے"۔
اسی کی مانند سوره نحل کی آیہ 40 میں ہے:
انما قولنا لشيء اذا اردنه ان نقول له کن فیکون
"جو چیز ہم ایجاد کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمارا قول یہی ہے کہ ہم اسے کہتے ہیں ہوجا تو وہ بلا فاصلہ ہوجاتی ہے۔ ؎1
زیر بحث آخری آیت کہ جوسورہ یٰسین کی آخری آیت ہے مبداء و معاد کے بارے میں ایک کلی نتیجه نکالنے کے لیے اس بحث کو ایک خوبصورت طریقے سے ختم کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے "پسں منزہ ہے وہ خدا کہ جس کے قبضہ قدرت میں تمام چیزیں ہیں اور تم سب کے سب اسی کی طرف پلٹ کرجاؤگے"۔ (فسبحن الذي بيده ملكوت كل شيء واليه ترجعون)۔
"ملکوت" "ملك" (بروزن "حکم") کے بارہ سے حکومت و مالکیت کے معنی میں ہے اور اس کے ساتھ "واؤ" اور "ت" کا اضا فہ تاکید و مبالغہ کےلیےہے ۔ اس لیے آیت کا مفہوم اس طرح ہوگا کہ ہرچیزکی مالکیت و حاکمیت بلا شرط خدا کے دست قدرت میں ہے اور اس قسم کا خدا ہر طرح کے عجزو ناتوانی سے منزه و مبرا ہے، تو اس صورت میں مردوں کو زندہ کرنا اور بوسیدہ ہڈیوں اور پراگندہ مٹی کو لباس حیات پہنانا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ، جب یہ بات ہے تو یقینی طور پر تم سب اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے اور معاد حق ہے