Tafseer e Namoona

Topic

											

									  کچھ اور نشانیاں

										
																									
								

Ayat No : 33-36

: يس

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ ۳۳وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ ۳۴لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ۳۵سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ۳۶

Translation

اور ان کے لئے ہماری ایک نشانی یہ مردہ زمین بھی ہے جسے ہم نے زندہ کیا ہے اور اس میں دانے نکالے ہیں جن میں سے یہ لوگ کھارہے ہیں. اور اسی زمین میں اَخرمے اور انگور کے باغات پیدا کئے ہیں اور چشمے جاری کئے ہیں. تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں حالانکہ یہ سب ان کے ہاتھوں کا عمل نہیں ہے پھر آخر یہ ہمارا شکریہ کیوں نہیں ادا کرتے ہیں. پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ہے ان چیزوں میں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور ان کے نفوس میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کا انہیں علم بھی نہیں ہے.

Tafseer

									  تفسیر
                کچھ اور نشانیاں 
 گزشتہ آیات میں فرستادگان الہی کی شرک و بت پرستی کے خلاف جد و جہد کے بارے میں گفتگو تھی ۔ تیز گزشتہ آخری آیت میں مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہوا تھا ۔ اب زیر بحث آیات توحید و معاد کی نشانیوں کو یکجا بیان کرتی ہیں تا کہ یہ نشانیاں منکرین کے لئے بیداری اور مبدا و معاد پرایمان لانے کا ذریعہ بن جائیں۔ 
 ان آیات میں پہلے مردہ زمینوں کے زندہ کرنے اور ان برکات سے کہ جن سے انسان فائده اٹھاتے ہیں بحث کی گئی ہے فرمایا گیا ہے : "مرده زمین بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے (مبداء و معاد کی) ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے دانے نکالے اور اسی میں سے وہ کھاتے ہیں"۔ (واية لھم الارض الميتة أحييناها واخرجنا منھاحبًا فمنه يأكلون )۔ ؎1 
 وجود حیات توحید کے اہم ترین دلائل میں سے ہے۔ یہ بہت زیادہ پیچیدہ اور حیرت انگیز مسئلہ ہے کہ جس نے تمام علماء اور دانشوروں کی عقل کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور تمام ترقیوں کے باوجود کہ جو علم و دانش میں نوع بشر کو نصیب ہوئی ہیں ابھی تک کسی نے اس کے معمے کو حل نہیں کیا ۔ ابھی تک کوئی بھی شخص ٹھیک طرح سے نہیں جانتا کہ کن عوامل کے زیر اثر پہلے دن بے جان موجودات زنده خلیوں میں تبدیل ہوئیں۔ 
 ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ نباتات کے بیج اور ان کے مختلف طبقات کس طرح بنے ہیں اور کون سے قوانین و رموز ان پر حکم فرما ہیں ، موافق حالات فراہم ہوتے ہی یہ بیج حرکت میں آجاتے ہیں اور نشوونما کا آغاز کر دیتے ہیں اور مروہ زمین کے ذرات کو اپنے وجود میں جذب کرلیتے ہیں اور اس طریقے سے مردہ موجودات کو زندہ موجود کی بافت و ین میں تبدیل کردیتے ہیں ، تاکہ ہر روز حیات کا ایک نیا جلوہ دکھائیں۔  
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    زیربحث آیت کے سلسلے میں علماء نے بہت سے احتمال ذکر کیے ہیں انسان جو چیز سب سے زیا دہ واضح نظرآتی ہے وہ یہ ہے کہ "أية لهم" خبر مقدم ہے اور " الارض الميتة ، مبتداۓ موخر ہے اور "احيينا"  مستانفہ ہے کہ جو گزشتہ لفظ کی توضیح و تفسیرهے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 عالم نباتات و حیوانات میں حیات کا مسئلہ اور مردہ زمینوں کا زندہ ہونا ، ایک طرف تو اس بات کی ایک واضح و روشن دلیل ہے کہ اس جہان کی خلقت میں ایک عظیم علم و دانش سے کام لیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ قیامت کی ایک واضح نشانی ہے۔ 
 یہ بات واضح ہے کہ  "لھم"  کی ضمیر "عباد" کی طرف لوٹتی ہے کہ جو گزشتہ آیات میں ہے اور یہاں "عباد"  سے مراد وہ تمام بندے ہیں جو مبداء و معاد سے مربوط مسائل میں انحراف یا غلط فہمی میں گرفتا ہیں اور قرآن ان کی کیفیت کو حسرت وتاسف کا سبب شمار کرتا ہے۔ 
 "اٰية کی تعبیر نکرہ کی صورت میں اسی توحیدی نشانی کی عظمت و اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔  
 "فمنه يأكلون"  ایک تو اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان نباتات کے کچھ دانوں سے غذا حاصل کرتا ہے اور کچھ انسان کی غذا کے قابل نہیں ہیں لیکن ان کے دوسرے فوائد ہیں مثلا جانوروں کی غذا، رنگ کرنے کے مادے، دوائیاں اور دوسرے امور کے جن سے انسانی زندگی میں فائده اٹھایا جاتا ہے۔ 
 دوسری طرف "منہ" کو " يأكلون "پر مقدم رکھنا کہ جو عام طور پر حصرکے لے آتا ہے، اس نکتے کو بیان کرتا ہے کہ انسان کے لیے زیادہ تر اور بہترین غذا نباتات سے حاصل ہوتی ہے بلکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ تمام تر غذا گویا اس سے حاصل ہوتی ہے۔ 
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 بعد والی آیت گزشتہ آیت کی توضیح و تشریح ہے اور مردہ زمینوں کی حیات کی کیفیت بیان کرتی ہے فرمایا گیا ہے:" ہم نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات اگائے ہیں اور اس میں چشمے نکالے"۔ (وجعلنا فيها جنات من نخيل واعناب وفجرنا فيها من العيوان)۔ 
 گزشتہ آیت میں اناج کے متعلق گفتگوتھی لیکن یہاں قوت بخش اور غذائی پھلوں کے متعلق بات کی گئی ہے ۔ ان کے دو عمدہ اور کامل نمونے "کھجور" اور "انگور" ہیں کہ جن میں سے ہر ایک مکمل غذا شمار ہوتا ہے۔ 
 جیسا کہ ہم پہلے بھی مفصل طور سے بیان کرچکے ہیں کہ ماہرین کے مطالعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دونوں پھل انواع و اقسام کے ضروری وٹامن اور انسانی بدن کے لیے درکار مختلف حیاتی مواد کے حامل ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ دونوں پھل سال بھر تازہ اور خشک میں غذا کیلئے محفور رکھنے اور استفادہ کرنے کے قابل ہیں ۔ ؎1 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    ان دونوں حیات بخش پھلوں (انگور و خرما) کے بارے میں اور ان کی غذائی اہمیت کے متعلق ماہرین کی گواہی کے سلسلے میں ہم بالترتیب جلد 11 اور جلد 13 ( سورہ نحل آیہ 11- اور سوره مریم آیہ 26 ) میں بحث کرچکے ہیں ۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 راغب کے اقوال "اعناب" جمع ہے "عنب" کی اور "نخيل" جمع ہے " نخل"  کی ۔ فرق یہ ہے کہ "عنب" خود انگور کو کہا جاتا ہے اور انگور کے پودے کے لیے یہ لفظ شاذو نادر ہی استعمال ہوتا ہے لیکن "نخل" اس درخت کا نام ہے اور اس کے پھل کو "رطب"  "تمره" (تازہ اور خشک کھجور) کہتے ہیں ۔ 
 جس کا نظریہ ہے کہ تعبیر کا یہ فرق کہ ایک مشہورهے تو درخت کی بات ہے اور دوسری جگہ پھل کی ، اس وجہ سے ہے کہ کھجور کے درخت کی جیسا کہ مشہور ہے ہر چیز قابل استفادہ ہے اس کا تنا ، شاخیں اور پتے سب مختلف امور میں کام آتے ہیں اور اس کا پھل ان سب کا سردار ہے ، جبکہ انگور کا پودا عام طور پر اس 
کے پھل کی وجہ سے مطلوب ہے اور اس کا تنا ، شاخیں اور ا س سے جدا شده اجزاء کا کوئی زیاده مصرف نہیں ہے۔ 
 نیز یہ بات کہ یہ دونوں صیفے جمع کی صورت میں آئے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ ان دونوں پھلوں کی مختلف انواع و اقسام کی طرف اشارہ ہو  کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی دسیوں قسمیں ہیں جن کی مختلف خصوصیات اور ذائقے ہیں۔ 
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ گزشتہ آیت میں صرف مردہ زمینوں کے زندہ کرنے کا ذکر تھا کہ جو قران مجید میں عام طور پربارش کے نزول کے ساتھ آیا ہے لیکن اس آیت میں جاری پانی کے چشموں کے متعلق گفتگو ہورہی ہے کیونکہ بہت سی زراعتوں کے لیے تو اکیلا بارش کا پانی ہی کافی ہے جبکہ پھلدار درختوں کو عام طور پر جاری پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 
 "افجرنا"  "تفجیر"  کے مادہ سے ، یہ لفظ وسیع اور کھلا شگاف پیدا کرنے کے معنی میں ہے ۔چشمے چونکہ زمین کو شگافتہ کرکے پھوٹتے ہیں ، اس لیے یہ تعبیر چشموں کے زمین سے باہر نکلنے کے بارے میں استعمال ہوئی ہے ۔  ؎1 
 بعد والی آیت ان پربار درختوں کے مقصد خلقت کو یوں بیان کرتی ہے: "مقصد یہ ہے کہ وہ اس کے پھل کھائیں ، حالانکہ ان کے بنانے میں ان کے ہاتھ کا کوئی عمل نہیں ہے کیا وہ خدا کا شکربجا نہیں لاتے"۔ (ليأكلوا من مرة وما عملته ايديھم افلا يشكرون )- 
 ہاں! وہ پھل کہ جو درختوں کی شاخوں پر ایک کامل غذا کی صورت میں ظاہر ہو تے ہیں ، انہیں پکانے یا دوسری کسی قسم کی تبدیلی کی معمولی سے معمولی ضرورت بھی نہیں ہوتی ، وہ درختوں سے توڑتے 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کا ثلاثی مجرد کا صیغہ بھی شگاف کرنے کے معنی میں ہے لیکن جب اسے باب "تفعیل" کی طرف لے جاتے ہیں  (جیسا کہ زیر بحث آیت میں ہے تو پھر تکثیر اور تشدید کا معنی دیتا ہے۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہیں قابل استعمال ہوتے ہیں اور یہ بات پروردگار کی انسانوں کے لیے انتہائی لطفت اور عظمت کی نشاندہی کرتی ہے ۔
 یہاں تک کہ اس نے اس تیار اور لذید غذا کی اسی طرح سے پیکینگ کی ہے کہ وہ ایک مدت تک محفوظ رہ سکتی ہے اور ان کی غذائی قدر و قیمت بھی ضائع نہیں ہوتی ، ان غذاوں کے برخلاف کہ جنہیں انسان خداداد مواد غذائی سے اپنے ہاتھ سے بناتا ہے کہ جو زیادہ ترجلدی خراب ہوجاتی ہیں ۔ 
 آیت کے معنی میں ایک دوسری تفسیر بھی موجود ہے اور وہ بھی قابل ملاحظہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن چاہتا ہے کہ ایسے پھلوں کی طرف بھی اشارہ کرے کہ جوبغیر کسی تبدیلی کے استعمال کے قابل ہوتے ہیں اور ایسی مختلف غذاؤں کی طرف بھی کہ جو ان پھلوں پر کچھ عمل انجام دینے سے حاصل ہوتی ہیں (پہلی تفسیرکی رو سے "ما عملته ابديهم، میں " ما" . نافیہ ہے اور دوسری تفسیر کی رو سے موصولہ)۔ 
 بہر صورت مقصد یہ ہے کہ انسانوں میں حق شناسی اور شکر گزاری کی حس کو بیدار کیا جائے تا کہ وہ شکرگزاری کے ذریعے معرفت پروردگار کے مرحلے میں قدم رکھیں کیونکہ شکرمنعم معرفت کروگار کا پہلا قدم ہے۔
 آخری زیر بحث آیت پروردگار کی تسبیح و تنزیہ کے بارے میں بات کرتی ہے اور مشرکین سے شرک پر کہ جس کے بارے میں گزشتہ آیات میں گفتگوتھی خط بطلان کھینچتی ہے اور سب کو راہ توحید اور یکتا پرستی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتی ہے:" منزہ ہے وہ ذات کہ جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں کے اور خود انہی لوگوں کے اور ان چیزوں کے جنہیں یہ  نہیں جانتے سب کے جوڑ سے پیدا کیے ہیں"۔ (سبحان الذي خلق الازواج كلها مماتنبت الارض و من انفسهم و مما لا يعلمون ) ۔ ؎1
 ہاں! وہ خدا کہ جس نے ان تمام جوڑوں کو اس عالم ہستی میں پیدا کیا ہے ، اس کا علم وقدرت بے انتہا ہے ۔ اس میں کوئی نقص اور عیب موجود نہیں ہے ، اس لیے اس کا کوئی شریک و شبیہ و نظیر بھی نہیں ہے 
 یہ جوبعض نے بے جان پتھروں ، لکڑیوں اور دوسری مخلوقات کو اس کا شبیہ قرار دے رکھا ہے ایسی  
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1    بعض مفسرین اور علماء ادب کے قول کے مطابق "سبحان" "علم" ہے "تسبیح" کا کیونکہ علم (مخصوص نام) کبھی تو اشخاص کے لیے ہوتا ہے اور اس کو "علم شخص" کہتے ہیں اور کبھی جنس کے لیے ہوتا ہے اور اسے "علم جنس" کہتے ہیں  اور کبھی کسی معنی کے لیے ہوتا ہے اور اس کو "علم معنی کہتے ہیں ۔ اس بناء پر اس کا مفہوم خدا کی تنزیہ اور اسے ہراس چیز سے پاک شمارکرناہے کہ جو عیب ونقص ہو۔ ایسی تتزیہ کہ جو عظمت پروردگار کے شایان شان ہو اور علم معنی کے سوا "علم" کی کبھی بھی اضافت نہیں ہوتی بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ "سبحان" مصداری معنی رکھتا ہے اور فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے اور ہرصورت میں خدائی تنزیہ کونہایت پرزور طریقے سے بیان کرتا ہے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
اناروانسبتوں سے اس کے دامن کبریائی پرکوئی گردنہیں پڑتی۔ 
 یہ بات واضح ہے کہ خدا اس چیز کا محتاج نہیں ہے کہ وہ خود اپنی تسبیح و تنزیہ کرے ، بلکہ یہ تو بندوں کے لیے ایک تعلیم ہے اور تکامل وارتقاءکاسفر طے کرنے کے لیے ایک دستور العمل ہے۔ 
 اس بارے میں کہ یہال "ازواج" سے کیا مراد ہے ،مفسرین نے بہت اختلاف کیاہے۔ 
 جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ "ازواج"  "زوج" کی جمع ہے۔ یہ لفظ عام طور پر مذکر و مونث دونوں کے لیے بولا جاتا ہے ، چاہے وہ حیوانات ہوں ان کے علاوہ ۔ بعد ازاں اس لفظ کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی اور پران دو موجود پر کہ جو ایک دوسرے سے نزریک ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کی ضد ہی ہوں ، "زوج" کا اطلاق ہونے لگا ۔ یہاں تک کہ ایک گھر کے دو مشابہ کمروں کے لیے یا دروازے کے دو کواڑوں کے لیے یا دو اکھٹے کام کرنے والے ساتھیوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور اس طرح سے عالم ہستی کے ہرموجود کے لیے ایک زوج (جوڑا) متصور ہوتا ہے ۔
 بہرحال بعید نہیں ہے کہ یہاں پر  "زوجیت"  اسی خاص معنی صنف مذکر و مؤنٹ میں ہو اور قرآن مجید اس آیت میں تمام عالم نباتات ، انسانوں اور دوسرے موجودات میں کہ جن سے لوگ مطلع نہیں ہیں ، زوجیت کی خبر د ے رہا ہو۔
 ممکن ہے یہ موجودات نباتات ہوں . اس زمانہ میں ان میں زوجیت کے دائرے کی وسعت ابھی تک ظاہر نہ ہوئی تھی۔ 
 یاہوسکتا ہے سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے حیوانات کی طرف اشارہ ہو کہ جن سے اس زمانے میں کوئی آگاہ نہیں تھا اور موجودہ زمانے میں ان کا کچھ حصہ انسان کے لیے ظاہرہواہے۔ 
 یا دوسری موجودات کی طرف اشارہ ہو کہ جو دوسرے آسمانی کروں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ 
 یاخورو بینی زنده و موجودات مراد ہوں ، اگرچہ اس زمانے کے ماہرین ان کے نر اور مادہ کو ابھی تک معلوم نہیں کرسکے ، لیکن اس زنده موجودات کی بنا اس قدر پوشید ہ معموں میں سے ہے کہ ممکن ہے کہ انسانوں کے علم و دانش نے ابھی تک اس کے اس عمر تک رسائی حاصل نہ کی ہو ، یہاں تک کہ عالم نباتات میں نراور مادہ ہونے کا وجودبھی - جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے قرآن کے نزول کے زمانے میں ـــــ سواۓ خاص خاص مواقع مثلًا کھجور وغیرہ کے درختوں کے ۔ پہچانا نہیں گیا تھا اور قرآن نے اس سے پردہ اٹھایا تھا اور آج ٓکے زمانے میں سائنسی طریقوں سے یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ عالم نباتات میں مسئلہ زوجیت ایک عمومی اور مشترک  امر ہے۔ 
 یہ احتمال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہاں "زوجیت" تمام ایٹموں کے اندر مثبت اور منفی ذرات کے وجود کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس جہان کی تمام چیزیں ایٹم سے بنی ہیں اور ایم حقیقت میں عالم مادہ کے اس عظیم محل کی عظیم تعمیر کے لیے اینٹ  کے مانند ہے۔ 
 جس وقت تک "ایٹم" کو توڑا نہیں گیا تھا اس وقت تک اس زوجیت کا کوئی پتہ نہیں تھا لیکن اس کے بعد ایٹم میں اور ان الیکٹرانوں کی صورت میں جو اس کے گرد گھومتے ہیں اور ان پروٹونوں کی صورت میں کہ جو ان کے اندر موجود ہیں ازواج (جوڑوں)  کا وجود پایہ ثبوت کوپہنچ چکاہے۔ 
 بعض نے اسے اشیاء کی مادہ وصورت یا جوہر و عرض سے ترکیب کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور بعض دوسرے اسے نباتات ، انسانوں حیوانوں اور دوسری موجودات کی مختلف انواع و اقسام کیلئے کنایہ سمجھتے ہیں ۔ 
 لیکن یہ بات واضح ہے کہ جب ہم ان الفاظ کو حقیقی معنی (صنف مذکر و مونث) پر محمول کرسکتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی قرینہ بھی موجود نہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم کنانی معانی کی طرف جائیں اور جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ زوجیت کے حقیقی معنی کئی عمده تفاسیر یہاں پر موجود ہیں ۔
   بہرحال یہ آیت بھی ان آیات میں سے ایک ہے کہ جو انسانی علم کا محدود ہونا بیان کرتی ہیں اور اس بات کی نشاندہی  کرتی ہیں کہ اس جہان میں بہت سے حقائق ایسے ہیں کہ جو ہمارے علم و دانش سے پوشیده ہیں۔ ؎1 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1     موجودات عالم کی زوجیت کے بارے میں اور خصوصًا عالم نباتات میں مذکر و مونث کی موجودگی سے  متعلق ہم جلد دهم  ص 111 (اردو ترجمہ) اور جلد 15  سوره شعرا کی آیہ 7  کے ذیل میں بحث اور کرچکے ہیں - 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------