Tafseer e Namoona

Topic

											

									  دائمی غفلت

										
																									
								

Ayat No : 31-32

: يس

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ ۳۱وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ ۳۲

Translation

کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا ہے جو اب ان کی طرف پلٹ کر آنے والی نہیں ہیں. اور پھر سب ایک دن اکٹھا ہمارے پاس حاضر کئے جائیں گے.

Tafseer

									  تفسیر
               دائمی غفلت 
 گزشتہ آیات زمانۂ ماضی میں دنیا کے لوگوں کے ایک بڑے حصے کی مسلسل غفلت کے بارے میں گزری ہے۔ اب ان آیات میں فرمایا گیا ہے: "کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے پہلی اقوم میں سے بہت سے افراد کو ان کے ظلم اور سرکشی کے سبب ہلاک کر ڈالا"۔ (الم یروا كم اهلكنا قبلھم من القرون) ۔ ؎1
 یہ کوئی پہلا گروہ نہیں ہے کہ میں نے روئے زمین پر قدم رکھا ہے بلکہ ان سے پہلے دوسری سرکش قومیں بھی ایک جہان میں زندگی بسر کرتی رہی ہیں ان کا درد ناک انجام کہ جو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے اور ان کے غم انگیز اثار کہ جو ان کے شہروں کے ویرانوں میں باقی رہ گئے ہیں ، ان کی آنکھوں کے 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     زیر نظر آیت میں استفہام ، تقریری استفہام ہے اور "كم" خبریہ ہے اور یہاں کثرت کے معنی میں آیا ہے اور (یروا) کا مفعول ہے اور (من القرون) اس کا بیان ہے۔ "قرون" جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے "قرن"  کی جمع ہے کہ جو طویل زمانے کے معنی میں بھی بولا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے معنی میں بھی کہ جو ایک ہی زمانے میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سامنے موجود ہیں ، کیا اتنا کچھ درس عبرت کے لیے کافی نہیں ہے؟ 
 اس بارے میں کہ "الم یروا"  (کیا انہوں نے دیکھا نہیں) میں جمع کی ضمیرکس کی طرف لوٹتی ہے مفسرین نے کئی احتمالی ذکر کیے ہیں : 
 پہلا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر "اصحاب القرية" کی طرف لوٹتی ہے کہ جن کے بارے میں گزشتہ آیات میں گفتگو ہوئی ہے۔ 
 دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اہل مکہ ہیں کہ جنہیں یہ آیات تنبیہ کرنے اور خبردار کرنے کے لیے نازل ہوتی ہیں۔ 
 لیکن گزشت آیت (ياحسرة على العباد ....) اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس سے مراد تمام انسان ہیں کیونکہ مذکورہ آیت میں لفظ "عباد"  پوری تاریخ کے ان تمام انسانوں کے لیے ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے افراد کی تکذیب کرتے اور مذاق اڑاتے تھے بہرحال یہ عالم کے تمام لوگوں کو ایک دعوت ہے کہ وہ گزشت لوگوں کی تاریخ کا غور کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کے باقی ماندہ  آثار کر دیکھیں اور انہیں عبرت حاصل کرنے کے لیے دل کی نگاہوں سے دیکھیں اور سرکشوں کے دوران محلول کے ایوانوں کو ائینہ عبرت سمجھیں ۔
 آیت کے آخر میں قرآن مزید کہتا ہے: "وہ کبھی بھی ان کی طرف نہیں لوٹیں گے"۔ (انهم اليهم الايرجعون)۔ ؎1 
 سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ دنیا کی طرف بازگشت اور گزشتہ گناہوں اور بد بختیوں کی تلافي کا امکان باقی نہیں رہا۔ ان کے گزشتہ سفر کے تمام پل تباہ ہوچکے ہیں اور اب ان کا لوٹ کرجانا ممکن ہی نہیں رہا ۔ 
 یہ تفسیر اس بات کے مانند ہے کہ جو علی علیہ السلام نے مردوں سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے نہج البالاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرمائی ہے: 
  لاعن قبيح يستطيعون انتقالاً ولافی حسن يستطيعون ازدیادًا 
   "نہ تو اس بات ہی کا امکان ہے کہ وہ اپنے قبیح اعمال سے نکل سکیں گے اور نہ ہی وہ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ اپنی نیکیوں اضافہ (کیونکہ واپس لوٹنے کی راہ۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   یہ جملہ "کم  اھلكنا" کا بدل ہے اور تقدیر میں اس طرح ہے: 
 الم يروا انهم اليهم لا يرجعون۔ 
  ؎1   بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ حالیہ ہے(ہلاک ہونے والوں کا حال)۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  بند ہوچکی ہے اور تلافی کا امکان نہیں رہا)"  (نہج البلاغہ خطبہ 188) 
 بعد والی آیت میں قرآن مزید کہتا ہے: "وہ سب کے سب بلا استثناء قیامت کے دن ہمارے پاس حاضرہوں"۔ (وان كل لما جميع لدينا محضرون)۔ ؎1 
 یعنی اس طرح نہیں ہے کہ اگر وہ ہلاک ہوگئے اور اس جہان میں واپس نہ پلٹ سکے تو مسئلہ ختم ہوجاۓ گا ۔ موت حقیقت میں نہ تو ابتدائے کار ہے اور نہ ہی انتہائے کار ، بلکہ وہ سب کے سب بہت جلد عرصہ محشر میں حساب کتاب کے لیے جمع ہوں گے اور اس کے بعد درد ناک عذاب الٰہی، کہ جو ایک مسلسل اور دائمی سزا ہوگی ان کا منتظرہے. 
 تو ان حالات میں کیا ہے یہ عبرت حاصل کرنے کا مقام نہیں ہے؟ کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سے 
انجام میں مبتلا نہ کریں اور جب تک کچھ بھی موقع باقی ہے اس ہولناک گرداب سے دور رہیں۔ 
 ہاں ! اگر موت پر ہر چیز کا خاتمہ ہوجانا ہوتا تو یہ بات ممکن تھی کہ وہ کہتے کہ یہ زندگی تو ہمارے سکون و راحت کی ابتدا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس طرح نہیں ہے اور بقول شاعر: 
  ولو انا اذا متنا تركنا  لكان الموت راحة كل حی 
  ولكنا  اذا  ستا  بعثنا   ونسئل  بعده عن كل شيء 
  "اگر ہمیں مرجانے کے بعد اپنی حالت پر چھوڑ دیا جاتا تو موت تمام زندوں کے لیے 
  راحت و آرام کا با عث ہوتی ۔"
 "لیکن جب ہم مر جائیں گے تو ہم دوبارہ زندہ ہوں گے اور اس کے بعد ہم سے ہر چیز کے متعلق سوال ہوگا"۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     اس آیت کی ترکیب کے بارے میں مفسرین کے درمیان مشہور ہے کہ  "ان" نافیہ ہے (اور بعض نے کہا ہے کہ  یہ محففہ ہے۔ اسی بناء ، پر اس نے اپنے مابعد کو نصیب نہیں دیا اور "لما" "الا" کے معنی میں ہے کیونکہ "لما" کا "الا" کے معنی میں آنا عرب اوہار کے کلام میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ اس بنا پر"کسائی" کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور "جمیع" "مجموع" کے معنی میں "کل" خبر ہے( "کل" کی تنوین مضاف الیہ محذوف کا بدلی ہے اور اصل میں یہ "کلھم" تھا ، اور "محضرون"  یا تو خبر کے بعد خبرہے یا جمیع کی صفت ہے، اسی طرح سے اس جملے کا معنی کچھ اس طرح ہوگا : 
  وما كلھم الامجموعون يوم القيامة محضرون لدينا 
  "اور نہیں ہیں وہ سب کے سب مگر قیامت کے دن اکٹھے مجموعی طور پر ہمارے پاس حاضر ہوں گے"۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ