Tafseer e Namoona

Topic

											

									  بستی والوں کی سرگزشت ایک عبرت ھے

										
																									
								

Ayat No : 13-19

: يس

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ ۱۳إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ ۱۴قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ۱۵قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ ۱۶وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ۱۷قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ ۱۸قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ ۱۹

Translation

اور پیغمبر آپ ان سے بطور مثال اس قریہ والوں کا تذکرہ کریں جن کے پاس ہمارے رسول آئے. اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں. ان لوگوں نے کہا تم سب ہمارے ہی جیسے بشر ہو اور رحمٰن نے کسی شے کو نازل نہیں کیا ہے تم صرف جھوٹ بولتے ہو. انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں. اور ہماری ذمہ داری صرف واضح طور پر پیغام پہنچادینا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں تم منحوس معلوم ہوتے ہو اگر اپنی باتوں سے باز نہ آؤ گے تو ہم سنگسار کردیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں سخت سزا دی جائے گی. ان لوگوں نے جواب دیا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے کیا یہ یاد دہانی کوئی نحوست ہے حقیقت یہ ہے کہ تم زیادتی کرنے والے لوگ ہو.

Tafseer

									  تفسیر
              بستی والوں کی سرگزشت ایک عبرت ھے 
 قبل ازیں قرآن پیغمبراسلامؐ کی نبوت ، سچے مومنین اور ہٹ دھرم منکرین کے بارے میں بحث گزری ہے۔ زیر بحث آیات میں اس ضمن میں گزشتہ امتوں کی کیفیت کا ایک نمونہ بیان ہو رہاہے ان آیات اور بعد والی چند آیات کے ضمن میں کہ جو مجموعی طور پر ۱۸ آیات بنتی ہیں ، چند گزشتہ پیغمبروں کی سرگزشت بیان کی گئی ہے۔ یہ انبیاء ایک مشرک اور بت پرست قوم کی ہدایت کے لیے مامور ہوتے تھے قرآن نے انہیں  "اصحاب القریہ" کے نام سے یاد کیا ہے ۔ یہ لوگ مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے اور انجام کار عذاب میں گرفتار ہوئے ۔ یہ سرگزشت اس لیے بیان کی گئی ہے تاکہ مشرکین مکہ کے لیے تنبیہ ہو اور پیغمبراکرم اور اس وقت کے تھوڑے سے مومنین کے لیے تسلی کا باعث ہو۔ 
  بہرحال اس سورہ کے قلب میں کہ جو خود قرآن کا دل ہے اس سرگزشت کا ذکر اس زمانے کے مسلمانوں سے اس کی کامل شباہت کی بنا پر ہے۔ 
 پہلے فرمایا گیا ہے: "تم ان سے بستی والوں کی مثال بیان کرو کہ جس وقت خدا کے رسول ان کی طرف 
آئے"۔ (واضرب لهم من اصحاب القرية ادجائها المرسلون)۔ ؎1 
 "قرية" اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں لوگ جمع ہوں اور کبھی خود انسانوں کو بھی "قرنية" کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جو شہروں کے لیے بھی ہے اور دیہات کے لیے بھی ، اگرچہ فارسی کی زبان میں عام طور پر طور پرصرف دیہات کے لیے بولا جاتا ہے لیکن عربي زبان میں اور قرآن مجید میں بارہا اہم شہروں اور علاقوں مثلًا مصر اور مکہوغیرہ پر اطلاق ہوتا ہے۔ 
 اس بارے میں کہ شہروں میں سے یہ کونسا شہر تھا ، اگرچہ مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ وہ شامات کے شہروں میں سے "انطاکیہ" تھا اور یہ قدیم روم کے مشہور شہروں میں سے تھا اور اب بھی جغرافیائی لحاظ سے ترکی کا حصہ ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل ہم نکات میں بیان کریں گے۔ 
 بہرحال اس سورہ کی آیات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس شہر کے رہنے والے بت پرست تھے اور یہ رسول انہیں توحید کی دعوت دینے اور شرک کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے ان کے پاس آئے تھے ۔ 
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 قرآن اس اجمالی بیان کے بعد ان کے قصے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : "وہ وقت کہ جب ہم نے دو رسولوں کو ان کی طرف بھیجا لیکن انہوں نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی ، لہذا تم نے ان دو کی تقویت کے لیے تیسرا رسول بھیجا، ان تینوں نے کہا کہ ہم تمهاری طرف خدا کے بھیجے ہوئےہیں"۔ (اذ ارسلنا اليهم اثنين فكذبوهما فعززنا بثالت فقالوا انا إليكم مرسلون۔ ؎2 
 اس طرح پروردگار کے تین رسول اس گمراہ قوم کی طرف آئے (دو پہلے آئے اور ایک بعد ازاں ان کی تقویت کے لیے)۔ 
 اس بارے میں کہ یہ رسول کون تھے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ ان دو 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1      بعض کا نظریہ ہے کہ "اصحاب القرية" "اضرب" کا پہلا مفعول ہے اور"مثلًا اس کا دوسرا سوال ہے کہ جو پہلے مفعول پرمقدم ہوا ہے اور بعض نے اسے "مثلًا" کا بدل مراد لیا ہے، لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب نظر آتا ہے۔ 
  ؎1     بعض مفسرین نے لفظ "اذا" کو یہاں "اصحاب القرية" کا بدل مراد لیا ہے اور بعض ـــ اسے فعل محذوف یعنی "اذکر" سے متعلق سمجھتے ہیں۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کے نام "شمعون" اور "یوحنا" تھے اور تیسرے کا نام "یولس" تھا اور بعض نے ان کے دوسرے نام ذکرکیے ہیں - 
 اس بارے میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے کہ وہ خدا کے پیغمبر اور رسول تھے با حضرت مسیحؑ کے بھیجے ہوئے اور ان کے نمائندے تھے اور آگر خدا یہ فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھیجا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیح کے بھیجے ہوئے بھی خدا ہی کے رسول ہیں ) ۔ زیر بحث آیات کا ظاہر پہلی تفسیر کے موافق ہے اگرچہ اس نتیجہ میں کہ جو قرآن لینا چاہتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
 اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں کی دعوت پر کیا ردعمل ظاہرکیا؟ قرآن کہتا ہے:  انہوں نے بھی وہی بہانہ کیا کہ جو بہت سے سرکش کافروں نے گزشتہ خدائی  پیغمبروں کے جواب میں کیا تھا: 
 "انہوں نے کہا ، تم توہم ہی جیسے بشر ہو اور خدائے رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تمہارے پاس جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے"۔  (قالواماانتم الا بشر مثلنا وما انزل الرحمٰن من شیء ان انتهم الاتكذبون)"۔ 
 اگرخدا کی طرف سے کوئی بھیجا ہواہی آنا تھا تو کوئی مقرب فرشتہ ہونا چاہیے تھا، نہ کہ ہم جیسا انسان اور اسی امر کو انہوں نے رسولوں کی تکذیب اور فرمان الٰہی کے نزول کے انکار کی دلیل خیال کیا۔ 
 حالانکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ پوری تاریخ میں سب نے رسول نسل آدمؑ ہی سے ہوۓ ہیں ان میں حضرت ابراہیم بھی تھے کہ جن کی رسالت سب مانتے تھے ۔ یقینًا وہ انسان ہی تھے۔ اس سے قطع نظر کیا انسانوں کی ضروریات ، مشکلات اور تکلیفیں انسان کے علاوہ کوئی اور سمجھ سکتا ہے ۔ ؎1 
 آیت میں خدا کی صفت رحمانیت کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟ ممکن ہے کہ یہ اس لحاظ سے ہو کہ خدا ان کی بات کو نقل کرتے ہوئے خصوصیت سے اس صفت کا ذکر کرتا ہے تاکہ ان کا جواب خود ان کی بات کی سے حل ہوجائے۔ کیونکہ یہ بات کیسے ممکن ہوسکتی ہے کہ وہ خدا کہ جس کی رحمت عامہ نے سارے عالم کو گھیررکھا ہے وہ انسانوں کی تربیت اور رشدو تکامل کی طرف دعوت دینے کے لیے پیغمبرنہ بھیجے؟ 
 یہ احتمال بھی ہے کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ وصف رحمٰن کا اس لیے ذکرکیا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ خدا وند مہربان اپنے بندوں کا کام پیغمبروں کے بھیجنے اور مشکل ذمہ داریاں عائد کرنے سے نہیں کرتا وہ تو آزاد رکھتا ہے ، یہ کمزور اور بے بنیاد منطق اس  گروہ کے انکار کے ساتھ آہنگ تھی۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     پیغمبروں اور امتوں کے ہم نوع ہونے کے فلسفہ کے بارے میں ہم جلد 12 ص 260 (سورہ بنی اسرائیل کی آیہ 94 کے ذیل میں ) تفصیل سے بحث کرچکے ہیں ( اردو ترجمہ دیکھیے)۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  بہرحال یہ اس گمرہ قوم کی شدید اور سخت مخالفت کے باوجود مایوس نہ ہوئے اور انہوں نے کمزوری نہ دکھائی اور ان کے جواب میں کہا : ہمارا پروردگارجانتا ہے کہ یقینًا ہم تمہاری طرف اس کے بھیجے ہوئے ہیں"۔ (قالوا ربنا يعلم انا الیکم لمرسلون )۔
 "اور ہمارے ذمہ تو واضح اور آشکار طور پر ابلاغ رسالت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے"۔ (وماوعلينا الا البلاغ المبین)۔ 
 مسلہ طور پر انہوں نے صرف دعوٰی ہی نہیں کیا اور قسم پرہی قناعت نہیں کی ، بلکہ "بلاغ مبین" کی تعبیرسے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے دلائل و معجزات بھی پیش کیے تھے ورنہ ان کا ابلاغ "بلاغ مبین" کا مصداق نہ ہوتا کیونکہ "بلاغ مبین"  تو اس طرح ہونا چاہیئے کہ حقیقت سب تک پہنچ جائے اور یہ بات یقینی اور محکم دلائل اور واضح معجزات کے سوا مکن نہیں ہے۔ 
 بعض روایات میں بھی آیا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کی طرح بعض ناقابل علاج بیماروں کو، حکم خدا سے ، شفا بخشی۔ 
 لیکن یہ دل کے اندھے واضح منطق اور معجزات کے سامنے نہ صرف جھکے نہیں بلکہ انہوں نے اپنی خشونت اورسختی میں اضافہ کردیا اور تکذیب کے مرحلے سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے تہدید اور شدت عمل کےمرحلے میں داخل ہو گئے "انہوں نے کہا : ہم تو تمہیں فال بدسمجھتے ہیں تمہارا وجود منحوس ہے اور تم ہمارے شہر کے لیے بد بختی کا سبب ہو"۔ (وقالوا انا تطيرنا بكم۔ ؎1 
 ممکن ہے کہ ان انبیاء الٰہی کے آنے کے ساتھ ہی اس شہر کے لوگوں کی زندگی میں ان کے گناہوں کے زیر اثریا خدائی تنبیہ کے طور پر بعض مشکلات پیش آئی ہوں ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے نقل بھی کیا ہے کہ ایک مدت تک بارش کا نزول منقطع رہا۔ ؎2  لیکن انہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی عبرت حاصل نہیں کی بلکہ اس  امر کو پیغمبروں کی دعوت کے ساتھ وابستہ کردیا ۔ 
 پھر اس پر بس نہیں کی بلکہ کھلی دھمکیوں کے ساتھ اپنی قبیع نیتوں کو ظاہر کیا اور کہا:" اگر تم ان باتوں سے دستبردار نہ ہوئے تو ہم یقینی طور پر تمہیں سنگسارکردیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں درد ناک سزا ملے گی" (لئن لم تنتهوا لنرجمنکم ولیمسنکم منا عذاب الیم) ۔ 
 کیا دردناک سزا (عذاب اليم) سنگسار کرنے کے بارے میں تاکید ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1  "تطیر" کے بارے میں اور فال بد لینے اور اس لفظ کے بنیادی مفہوم کے متعلق ہم نے جلد ششم میں سورہ اعراف کی آیہ 131 اس کے ذیل میں اور جلد 15 میں سورہ نمل کی آیہ 47 کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ 
  ؎     تفسير قرطبی زیربحث آیات کے ذیل میں 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 سزاهے ؟ یہ دو احتمال ہیں۔ 
 دوسرا احتمال ہمیں زیادہ صحیح نظرآتا ہے ، کیونکہ سنگسار کرنا سزا کی بدترین قسم ہے جو کبھی کبھی موت پر بھی منتج ہوتی ہے، ممکن ہے کہ " عذاب الیم" کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ ہم تمہیں یہاں تک سنگسار کریں گے کہ وہ تمہاری موت کا سبب بن جائے یا یہ کہ سنگسار کرنے کے علاوہ دوسری قسم کی سختیاں ہوں کہ جو گزشتہ زمانے کے ظالم لوگ کیا کرتے تھے ۔ مثلًا سلائیاں گرم کرکے آنکھوں میں داخل کرنا یا پگھلی ہوئی دھات حلق میں ڈالنا اور اسی قسم کے دوسرے عذاب بھی ہم نہیں دیں گے۔ 
 بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ سنگسار کرنا تو جسمانی عذاب تھالیکن  "عذاب اليم" روحانی عذاب تھا۔ ؎1 
 لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ 
 ہاں! باطل کے طرفدار اور ظلم وفساد کے حامی چونکہ کوئی منطق پیش کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے لہذا ہمیشہ دھمکیوں ، دباؤاورتشدد کا سہارا لیتے ہیں ، وہ اس بات سے غافل ہیں کہ راہ خدا سے راہرد اس قسم کی دھمکیوں کے آگے نہیں جھکتے بلکہ ان کی استقامت میں اور اضافہ ہوتا ہے جس دن انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے اسی روز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایثار و قربانی کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔ 
   ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 یہ وہ مقام تھا کہ خدا کے پیغمبر اپنی منہ بولتی منطق کے ساتھ ان کی فضول ہذياني باتوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہوگئے اور "انہوں نے کہا : تمهاری بدبختی اور نحوست خود تمہاری ہی طرف سے ہے اور اگر تم ٹھیک طرح سے غور کرو تواس حقیقت سے واقف ہوجاؤ گے"۔ (قالوا طائرکم معکم این ذکرتم)۔ 
 اگر بدبختی اور مخوس حوادث تمهارے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہیں اور برکات الٰہیہ تمہارے درمیان میں سے اٹھ گئی ہیں تو اس کا عامل اپنے اندر اپنے پست افکار اور قبیح اعمال میں تلاش کرو کہ نہ ہماری دعوت میں۔ یہ تمہیں تو ہو کہ جنہوں نے بت پرستی ، خودغرضی ظلم اور شہوت پرستی سے اپنی زندگی کی فضا کو تیره و تاریک بنا ڈالا ہے اور خدا کی برکات کو اپنے آپ سے منقطع کرکے رکھ دیا ہے۔ 
 بعض مفسرین نے "ائن ذكرتم"  کو ایک مستقل مطلب کی طرف اشارہ سمجھا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر خدا کے نبی آئیں اور تمہیں نصیحت کریں اور ڈرائیں تو کیا اس کی جزا یہ ہے کہ تم انہیں عذاب اور سزا کی دھمکیاں دو اور ان کے وجود کو منحوس خیال کرو ؟ وہ تو تمہارے لیے نورو 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
   ؎1  اوریہ اس کی صورت میں ہے کہ "لنرجمنکم" "رجم" کے مادہ سے گالیاں دینے، ناسزاکہنے اور تہمت لگانے کے معنی میں ہو۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------ 
ہدایت اور خیر و برکت کا تحفہ لائے ہیں تو کیا اس خدمت کا جواب وہ دھمکیاں اور بد کلامیاں ہیں جو رات دن تم انہیں دیتے اور رہتے ہو۔ ؎1 
 آخر کار پروردگار کے ان بیجھے ہوئے افراد کی آخری گفتگو ان سے یہ تھی کہ "تم حد سے بڑھے ہوئے اور تجاوز کرنے والے لوگ ہو"۔ (بل انتم قوم مسرفون)۔ 
 تمہاری اصلی بیماری وہی تمہارا حد سے تجاوز ہے اگر تم توحید کا انکار کرتے ہوئے شرک کی طرف رخ کرتے ہو تو اس کی وجہ حق سے تجاوز ہے اور اگر تمہارا معاشرہ برے انجام میں گرفتار ہوا ہے تو اس کا سبب بھی گناہ میں زیادتی اور شہوات میں آلودگی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اگر خیرخواہوں کی خیر خواہی کے جواب میں تم انہیں موت کی دھمکی دیتے ہو تو یہ بھی تمہارے تجاوز کی بنا پر ہے۔ 
 ہم ان رسولوں کے تاریخی واقعہ اور ان حوادث کے وقوع کے مقام کے بارے میں اس داستان کی باقی مانده آیات کی تفسیر کے بعد تفصیل سے گفتگو کریں گے ۔ 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    بہرحال جملہ شرطیہ کی جزا محذوف ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے: ائن ذکر تم قابلتمونا بهذه الأمور -با- ائن ذكرتم علمتم وصدق ما قلنا۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------