پروردگار کے ساتھ نفع بخش تجارت
إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ۲۹لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ۳۰
یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور انہوں نے نماز قائم کی ہے اور جو کچھ ہم نے بطور رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کیا ہے یہ لوگ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کسی طرح کی تباہی نہیں ہے. تاکہ خدا ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنے فضل و کرم سے اضافہ بھی کردے یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر کرنے والا ہے.
تفسیر
پروردگار کے ساتھ نفع بخش تجارت
گزشتہ آیات میں علماء کے خوف وخشیت کے مقام کی طرف اشارہ ہوا تھا۔ زیر بحث آیات میں ان کے مقام "امید و رجاء" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ دو چیزوں کے ساتھ ہی انسان آسمان سعادت کی بلندی پر پرواز کرسکتا ہے اور تکامل و ارتقاء کی راہ طے کرسکتا ہے۔ پہلے فرمایا گیا ہے: "جو لوگ کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے پنہاں و آشکار خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں کہ جس میں گھاٹا نہیں ہے" (ان الذين يتلون كتاب الله واقاموا الصلوة وانفقوا مما رزقناهم سرًا وعلانية يرجون تجارة لن تبور)۔ ؎1
یہ بات واضح ہے کہ یہاں "تلاوت" سرسری اور غور و فکر سے خالی قرات کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس ایسا پڑھنا مراد ہے کہ جوغوروفکرکاسرچشم ہو ، وہ فکرکہ جوعمل صالح کا سرچشمہ بنے ، ایسا عمل کہ جو ایک طرف توانسان کا خدا سے رشتہ جوڑ دے جس کا مظہرنماز ہے اور دوسری طرف اسے مخلوق کے ساتھ مربوط کر دے کہ جس کا مظہر انفاق ہے ۔
خرچ بھی تمام چیزوں میں سے کہ جو خدا نے انسان کو دی ہیں ، اپنے علم میں سے ، اپنے مال و ثروت اور اثرورسوخ میں سے اپنی قوی فکر و نظر میں سے اور اپنے اخلاق و تجربات میں سے خلاصہ یہ کہ تمام خدا داد نعمات میں سے ۔
یہ انفاق کبھی تو پوشیدہ طریقے سے ہوتا ہے تاکہ مکمل اخلاص کی نشانی بنے (سرًا) اور کبھی آشکارا اور علی الاعلان تاکہ دوسروں کےلیے تشویق کا سبب ہو اور شعائرالٰہی کی تعظیم بھی ہو (اعلانية)۔
ہاں! وہ علم کہ جواس قسم کا اثررکھتا ہو وہ رجاء و امید کا سبب بنتا ہے ۔
اس آیت میں اور گزشتہ آیت میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سچے علماء ان صفات کے حامل ہوتے ہیں ۔
روحانی لحاظ سے ان کا دل عظمت خدا کے احساس سے خوف وخشیت سے معمور کرتا ہے۔
گفتگو کے لحاظ سے ان کی زبان آیات خدا کی تلاوت میں مشغول ہوتی ہے۔
روحانی اور جسمانی عمل کے بیان سے نماز پڑھتے ہیں اور اسے بطور عبادت بجا لاتے ہیں۔
دولت سے متعلق عمل کے لحاظ سے جو کچھ ان کے پاس ہے اسے آشکارا اور پنہاں انفاق کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مقصد کے لحاظ سے ان کا افق فکر اتنا بلند و بالا ہے کہ ان کا دل زود گزر مادی دنیا سے اچاٹ ہوجاتا ہے، ان کی نظر صرف سود مند خدائی تجارت پر ہوتی ہے کہ جس کے دامن کی طرف فنا کا ہاتھ دراز نہیں ہوتا ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ "تبور" "بوار" کے مادہ سے ، سخت گھاٹے کے معنی میں آیا ہے۔ اور چونکہ شدید گھاٹا باعث تباہی ہوتا ہے ۔ لہذا "بوار" ہلاکت کے معنی میں آیا ہے، اس طرح "بوار" سے خالی تجارت وہ ہے کہ جو نہ گھاٹا ہو اور نہ ہی تباہی ۔
ایک حدیث میں آیا ہے
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 توجہ رکھیے کہ "يرجون" "ان" کی خبرہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ایک شخص نے رسول خداؐ کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے موت کیوں پسند نہیں؟
آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے؟
اس نے عرض کی : ہاں!
فرمایا : اسے اپنے سے پہلے آگے بھیج دے۔
عرض کیا : میں ایسا نہیں کرسکتا۔
فرمایا:
ان قلب الرجل مع ماله ان قدمه أحب أن يلحق به، وان اخره احب
الت یتأخرمعه -
"انسان کا دل اس کے مال کے ساتھ ہوتا ہے ، اگر وہ اسے اپنے آگے بھیج دے
تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ جاملے اور اگر اسے اپنے پاس روک رکھے تو
چاہتاہے کہ وہ بھی اس کے ہمراہ نہیں رہے"۔ ؎1
یہ حدیث حقیقت میں زیربحث آیت کی روح کو منعکس کرتی ہے ، کیونکہ ارشاد ہوتا ہے: کہ وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں وہ دار آخرت کی امید اور اس سے لگاؤ رکھتے ہیں چونکہ انہوں نے نیکیوں کو اپنے سے پہلے بھیج دیا ہے لہذا وہ اس کے ساتھ جاملنے کی آرزو کرتے ہیں۔
آخری زیر بحث آیت سچے مومنین کے مقصد کو اس طرح بیان کرتی ہے : وہ یہ اعمال صالح انجام دیتے ہیں تاکہ خدا انہیں مکمل اجر اور صلہ دے اور اپنے فضل سے اضافہ بھی کرے کہ وہ بخشنے والا اور شکورہے" (ليوفيهم اجورهم ویزیدھم من فضله انه غفور شکور)۔ ؎2
یہ جملہ حقیقت میں ان کے انتہائی خلوص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے نیک اعمال میں خدائی اجرو ثواب کے سوا اور کسی چیز پر نظر نہیں رکھتے جو کچھ چاہتے ہیں اس سے چاہتے ہیں اور ریا ، دکھاوے اور لوگوں کی تحسین و تعریف کے لیے قدم نہیں اٹھاتے کیونکہ اعمال صالح میں اہم ترین مسئلہ وہی نیت خالص ہے۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مجمع البیان ،جلد 8 ص 407 زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
؎2 "لیوفیھم" یاتو "يتلون كتاب الله........" سے متعلق ہے، اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان کا مقصد تلاوت ، نماز اور انفاق سے خدا کا اجروثواب حاصل کرناہے اور یا یہ "لن تبور" سے متعلق ہے اور اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان کی تجارت کبھی بھی گھاٹے کی طرف نہیں جائے گی کیونکہ ان کا اجر و صلہ دینے والا خدا ہے۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"اجور" "اجر" کی جمع ہے اور "مزدوری" کے معنی میں ہے ۔ حقیقت میں یہ تعبیر پروردگارکی طرف سے ایک لطف کی مظہر ہے گویا وہ بندوں کو اعمال صالح کے بدلنے کا حقدار سمجھتا ہے ۔ حالانکہ بندوں کے پاس جو کچھ بھی ہے اسی کی طرف سے ہے ، یہاں تک کہ اعمال صالح انجام دینے کی طاقت بھی اسی کی عطا کردہ ہے۔
اس تعبیر سے بھی زیادہ محبت آمیز "ویزیدهم من فضله" کا جملہ ہے کہ جس سے انہیں نوید اور خوشخبری دی گئی ہے کہ عام اجر کے علاوہ کہ جو خود کبھی عمل سے سینکڑوں گنا اور کبھی ہزاروں گنا ہے ، اپنے فضل سے مزید اس میں اضافہ کرتا ہے اور وہ نعمتیں کہ جوکسی کے وہم وگمان میں کبھی نہیں آتیں اور اس جہان میں کوئی بھی شخص ان کا تصور نہیں کرسکتا اپنے وسیع فضل سے انہیں بخشے گا۔
ایک حدیث میں ابن مسعود سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا :
هوالشفاعة لمن وجبت له النارممن صنع اليه معروفًا في الدنيا۔
"اس سے مراد مرتبہ ومقام شفاعت ہے کہ جو انہیں حاصل ہوگا تاکہ وہ ان لوگوں کی
شفاعت کریں کہ جنہوں نے ان سے دنیا میں کوئی نیکی کی ہے لیکن اپنے اعمال کی
وجہ سے مستحق عذاب ہوگئے ہیں"۔ ؎1
اس طرح سے نہ صرف وہ خود اہل نجات ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی پروردگار کے فضل سے نجات کا باعث ہیں۔
بعض مفسرین نے "ویزید هم من فضله" کو مقام "شہود" کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو قیامت میں مومنین کوحاصل ہوگا یعنی وہ پروردگار کےجمال وجلال کی طرف دیکھیں گے اوراس منظر سے بہت لذت حاصل کریں گے۔
لیکن ظاہرًا مذکورہ جملہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے کہ جس میں مذکورہ حدیث کا مضمون بھی شامل ہے اور دوسری نعمات بھی شامل ہیں۔
"انه غفور شکور" کا جملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پہلا لطفِ پروردگار تو ان کے حق میں وہی گناہوں اور لغزشوں کی بخشش ہے کہ جو کبھی کبھی ان سے سرزد ہوتے رہے کیونکہ انسان کی زیادہ تر پریشانی اسی وجہ سے ہوگی۔
جب وہ اس لحاظ سے آسودہ خاطر ہوجائیں گے تو اللہ انہیں ان کے اعمال کا شکریہ ادا کرے گا اورانہیں افضل ترین جزادےگا ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مجمع البیان ، زیربحث آیات کے ذیل میں ۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تفسیر مجمع البیان میں یہاں عربوں کی ایک جاذب نظر ضرب مثل نقل ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں:
اشكر من بروقه
"فلاں شخص درخت بروقہ سے بھی زیادہ شکر گزار ہے"۔ ؎1
اور یہ ایک چھوٹے سے درخت کی طرف اشارہ ہے کہ جو سرزمین عربستان میں ہوتا تھا اور عربوں کا عقیدہ تھا کہ جب اس پر بادل کا سایہ ہوتا ہے تو یہ فوراً سرسبز ہوجاتا ہے اور بادل برسے بغیر اس کے پتے نکل آتے ہیں اور یہ انتہائی شکر گزاری کے لیے ایک ضرب المثل ہے کہ جو معمولی سی خدمت کے بدلے بڑی سے بڑی جزا اور اجر دینے کے موقع پر بولی جاتی ہے۔ ؎2
البتہ اس قسم کے درخت کا خالق و مالک اس سے بھی زیادہ قدر دانی کرنے والا اور بخشش کرنے والا ہے۔