دل کے اندھے ایمان نہ لائیں توتعجب نہیں
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ۲۴وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ۲۵ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ۲۶
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو. اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کے پہلے والوں نے بھی یہی کیا ہے جب ان کے پاس مرسلین معجزات, صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے. تو ہم نے کافروں کو اپنی گرفت میں لے لیا پھر ہمارا عذاب کیسا بھیانک ہوا ہے.
تفسیر
دل کے اندھے ایمان نہ لائیں توتعجب نہیں
گزشتہ آیات میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ کچھ افراد ایسے ہیں کہ جو مردوں اور نابیناؤں کی مانند ہیں کہ جن کے دل میں انبیاء کی باتیں معمولی سا اثر بھی نہیں کرتیں ۔ اس کے بعد زیر بحث آیات میں پیغمبراکرمؐ کی اس سلسلے میں دلجوئی کے لیے تاکہ وہ غمگین اور پریشان نہ ہوں، پہلے فرمایا گیا ہے: "ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بناکر بھیجا اور گزشتہ زمانے میں کوئی امت ایسی نہ تھی کہ جس میں ڈرانے والا نہ آیا ہو"۔ (انا ارسلناك بالحق بشيرًا ونذيرًا وان من امة و الإخلا فيها نذیر)۔
تو "بشارت" و "انذار" کی زمہ داری میں کوتاہی نہ کرے یہی تیرے لیے کافی ہے ۔ تو اپنی ندا ان کے کانوں تک پہنچا، خدا کی جزاؤں کی بشارت دے اور پروردگار کے عذاب سے انہیں ڈرا ، چاہے وہ قبول کریں یا دشمنی اور ہٹ دھرمی اختیار کرلیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ گزشتہ بحث کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ : "ان انت الانذير" لیکن زیربحث پہلی آیت میں یہ ہے کہ :" ہم نے تجھے برحق بشیرونذیربناکر بھیجا ہے" یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تو ڈرانے والا ہے تو تُو خود اپنی طرف سے یہ کام نہیں کرتا ، یہ تو ایک ماموریت ہے کہ جو ہم نے تیرے سپرد کی ہے۔
اور اگر گزشتہ آیت میں صرف انذار کا ذکر ہوا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں ہٹ دھرم جاہلوں کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی کہ جو قبرستان کے مردوں کی طرح کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے، لیکن یہاں پر انبیاء کی ذمہ داری کو کلی طور پر بیان کیا جارہا ہے کہ جو بشارت و انذار کے دونوں پہلوؤں کی حامل ہے ۔ البتہ اس آیت کے آخر میں پھر نئے سرے سے "نذیر" کا ذکر ہے ،کیونکہ مشرکین اور ظالموں کے مقابلے میں انبیاء کی دعوت کا بنیادی حصہ "انذار" پر مشتمل تھا۔
"خلا" "خلاء" کے مادہ سے اصل میں ایک مکان اورجگہ کے معنی میں ہے کہ جس میں کوئی ڈھانپنے والی چیز نہ ہو ، یہ لفظ زمانے کے لیے کی استعمال ہوتا ہے اورمکان کے لیے بھی، اور چونکہ زمانہ گزرجانے والی چیز ہے اس لیے گزشتہ زمانوں کو "ازمنہ خالیہ" کہاجاتا ہے ، کیونکہ اب وہ باقی نہیں ہیں اور دنیا ان سے خالی ہوچکی ہے۔
اس بناء پر "وان من امة الاخلا فيها نذیر" کا جملہ اس معنی میں ہے کہ :"گزشتہ امتوں میں سے ہرامت کے لیے گزشتہ زمانے میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا موجودرہا ہے"۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیت کے مطابق تمام امتیں خدا کی طرف سے انذار کرنے والایعنی پیغمبر رکھتی تھیں ، اگرچہ بعض نے اس کو ایک وسیع ترمعنی میں لیا ہے کہ جس میں علماء اور ایسے دانشور بھی شامل ہیں کہ جو لوگوں کو متنبہ کیا کرتے ہیں یہ معنی ظاہر آیت کے خلاف ہے۔
بہرحال اس بات کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہر شہراور ہرعلاقے میں ایک پیغمبرمبعوث ہوا ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی دعوت اور ان کی باتیں ان سب لوگوں کے کانوں تک پہنچ گئی تھیں ۔کیونکہ قرآن و کہتا ہے: "خلافيها نذير" "یعنی" ان میں ڈرانے والا موجود تھا "یہ نہیں کہتاکہ "منها" یعنی خود" ان میں سے" تھا، اس بناء پر جو کچھ زیر بحث آیت میں بیان ہوا ہے وہ سورہ سبا کی آیہ 44 سے اختلاف نہیں رکھتا کہ جو یہ کہتی ہے:
وما ارسلنا اليهم قبلک من نذیر
"ہم نے مشرکین مکہ کی طرف تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا تھا"۔
یہاں ڈرانے والا سے مراد خود انہیں میں سے ہے جبکہ زیر بحث آیت میں پیغمبر کی دعوت کا ان تک پہنچنا ہے۔
بعد والی آیت میں قرآن مزید کہتا ہے : "اگر وہ تمہاری تکذیب کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور تم اس پرغمگین نہ ہو، کیونکہ جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی تھی جبکہ وہ واضح معجزات و دلائل ، پند و نصائح سے معمور کتب اور ایسی آسمانی کتب لے کر ان کے پاس آئے تھےکہ جوضیاء بخش احکام و قوانین پرمشتمل تھیں" (وان يکذبوك فقد كذب الذين من قبلهم جائتهم رسلھم بالبينات وبالزبر و بالكتاب المنير)۔ صرف تم ہی ہیں کہ جو معجزات اور آسمانی کتاب کے حامل ہو۔ اس کے باوجود اس جاہل قوم نے تمہاری تکزیب کی ہے، بلکہ گزشتہ پیغمبر بھی اسی طرح کی مشکل سے گزرتے رہے ہیں ۔ اس بناء پر تم غمگين نہ ہو اور مضبوطی کے ساتھ اپنے راستے پر قدم بڑھاتے رھو اور جان لو کہ قبول کرنے والے قبول کر ہی لیں گے۔
"بينات" "زبر" اور "کتاب منیر" کے درمیان فرق کے بارے میں مفسرین نے مختلف نظریات پیشں کیے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ واضح دو تفسیریں ہیں :
1- "بینات" ان واضح اور روشن دلائل ومعجزات کے معنی میں ہے کہ جو پیغمبر کی حقانیت ثابت کر دیں لیکن "زبر" کہ جو "زبور" کی جمع ہے، ان کتابوں کے معنی میں ہے کہ جنہیں مستحکم کر کے لکھا گیا (پتھر وغیرہ پر لکھی ہوئی تحریر کے مانند) جبکہ یہاں ان کے مطالب کے استحکام کے لیے کنایہ ہے ۔ ؎1
بہرحال یہ ایسی کتابوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو حضرت موسٰی سے پہلے نازل ہوئیں جبکہ "کتاب منیر" کتاب موسی اور ان دوسری آسمانی کتابوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس کے بعد نازل ہوئیں (کیونکہ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی آیہ 44 ، 46 میں تورات اور انجیل کو ہدایت و نور کے عنوان سے ذکرکیاگیا ہے ، اور اسی سورہ کی آیہ 15 میں قرآن مجید کے بارے میں بھی نور کی تعبیرآئی ہے)۔
۔ٓ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 راغب مفردات میں کہتا ہے:
زبرت الكتاب كتبته کتابة عظيمة وكل كتاب غليظ الكتابه يقال له زبور (مفردات ماده زبر) "میں نے مستحکم اورعظیم کتابت کی اور حبس کتاب کی کتابت مستحکم اور سخت ہوا اسے "زبور" کہتے ہیں"۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2- "زبر" سے مراد کتب انبیاء کا وہ حصہ ہے جس کے مطالب اور مضامین صرٖف وعظ وانصیحت اور مناجات پرمشتمل تھے (مثلًا زبور داؤد)۔
لیکن "کتاب منیر" آسمانی کتابوں کی وہ قسم ہے کہ جو احکام و قوانین اور مختلف اجتماعی و انفرادی دستور کی حامل تھیں ،مثلاتورات ، انجیل اور قرآن مجید ۔ دوسری تفسیر زیآدہ مناسب نظر آتی ہے۔
آخری زیر بحث آیت میں اسی گروہ کے درد ناک عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کیا ہے، کہ ایسا نہیں تھا کہ وہ خدائی عذاب سے محفوظ رہ جائیں اور ہمیشہ اپنی تکذیبوں کو جاری رکھیں لہذا "اس کے بعد ہم نے کافروں کو پکڑلیا اور انہیں سخت سزا دی" (ثم اخذت الذين كفروا) ۔ ؎1
کسی گروہ کو طوفان نے آلیا ، کسی اور کو تیز اور ویران کن اندھی نے تباہ کردیا اورکسی جماعت کو ہم نےآسمانی چنگھاڑ، صاعقہ اور زلزلہ کے ذریعے دہرم برہم کردیا ۔
اس کے بعد آخر میں تاکید اور ان کی سزا کی شدت بیان کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: "ان کے لیے میرا عذاب کیسا تھا"؟ (فکیف کان نکیر)۔
یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اب تک کوئی اہم کام انجام دیتا ہے اور اس کے بعد حاضرین سے سوال کرتا ہے کہ میں نے یہ کام کیسا کیا ہے ۔؟
بہرحال یہ آیات ایک طرف تو راه خدا کے تمام راہیوں خصوصًا ہر زمانے اور ہرامت کے سچے اور رہبروں اور پیشواؤں کی دلجوئی کرتی ہیں اور ان کے دلوں کو گرماتی ہیں کہ وہ مخالف صداؤں سے دل تـنگ اور مایوس نہ ہوں اور یہ جان لیں کہ خدائی دعوتیں ہمیشہ ہٹ دھرموں ، متعصبوں اور مفاد پرست ظالموں کی طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا کرتی رہی ہیں جبکہ کچھ دل سوز طالبان حق اور عاشقان پآکبازبھی موجود رہتے ہیں کہ جو واعیان حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جان کو قربان کردیتے ہیں ۔
دوسری طرف یہ آیات ان ہٹ دھرم مخالفین کے لیے ایک دھمکی کی حیثیت رکھتی ہیں تاکہ وہ یہ جان لیں کہ وہ ہمیشہ کےلیےاپنے شرمناک اور مخرب اعمال جاری نہیں رکھ سکتے ۔ جلد یا بدیر خدائی عذاب دامنگیر ہوکررہے گا۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "اخذت" "اخذ" کے مادہ سے پکڑنے اور گرفت کرنے کے معنی میں ہے لیکن یہاں سزا کے لیے کنایہ ہے کیونکہ گرفت میں لینا اور پکڑنا سزا کی تمہید ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------