Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ان کے لےے راہِ فرار نہ ہوگی

										
																									
								

Ayat No : 51-54

: سبأ

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ ۵۱وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ ۵۲وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ ۵۳وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُرِيبٍ ۵۴

Translation

اور کاش آپ دیکھئے کہ یہ گھبرائے ہوئے ہوں گے اور بچ نہ سکیں گے اور بہت قریب سے پکڑلئے جائیں گے. اور وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے حالانکہ اتنی دور دراز جگہ سے ایمان تک دسترس کہاں ممکن ہے. اور یہ پہلے انکار کرچکے ہیں اور ازغیب باتیں بہت دور تک چلاتے رہے ہیں. اور اب تو ان کے اور ان چیزوں کے درمیان جن کی یہ خواہش رکھتے ہیں پردے حائل کردیئے گئے ہیں جس طرح ان کے پہلے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا کہ وہ لوگ بھی بڑے بے چین کرنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے.

Tafseer

									زیرِ بحث آیات میں کہ جو ”سورہ سبا “ کی آخر ی آیات ہیں ، ان مباحث کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جوہٹ دھرم مشرکین کے بارے میں گزشتہ آیات مین گزرچکی ہیں ، دو بارہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف روئے سخن کرتے ہو ئے ، اس گروہ کی حالت کوعذاب ِ الہٰی کے چنگل میں گرفتار ی کے وقت مجسم کرتاہے ، کہ وہ (عذاب ِ الہٰی میں ) گرفتار ہونے کے بعد کسی طر ح ایمان لانے کی فکر میں پڑ یں گے لیکن ان کے ایمان لانے کاکوئی فائد ہ نہ ہوگا . فرماتاہے : ” اگر تُو اس وقت دیکھے جبکہ ان کی فریاد بلند ہوگی ،لیکن وہ بھاگ نہ سکیں گے اورعذابِ الہٰی کے چنگل سے نکل نہ سکیں گے ،اور انہیں بالکل قریب سے ہی پکڑ لیں گے اور گرفتار کرلیں گے توتُو ان کی بیچار گی اور بے بسی پر تعجب کرے گا “ ( وَ لَوْ تَری إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ وَ اٴُخِذُوا مِنْ مَکانٍ قَریب) (۱) ۔
یہ بات کہ یہ نا لہ و ز اری اور فریاد و بے تابی کس زمانے سے تعلق رکھتی ہے ؟ مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض اسے عذابِ دنیا یاموت کے وقت کے ساتھ وابستہ سمجھتے ہیں ،اور بعض اسے روز ِ قیامت کے عذاب سے متعلق جانتے ہیں ۔
لیکن زیرِبحث آیتوں میں سے آخر ی آیت میں ایک ایسی تعبیر موجود ہے کہ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ آیات ، سب کی سب دنیا ہی میںپہنچنے والے عذاب کے ساتھ ،یاجان کنی کے لمحہ کے ساتھ مربوط ہیں ، کیونکہ آخر ی آیت میںوہ یہ کہتا ہے کہ : ” ان کے اوران کی چہیتی چیزوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی “ جیساکہ اس سے پہلے کفار کے دوسرے گروہوں کے بارے میں یہی عمل انجام پایاہے ۔
یہ تعبیرروز قیامت کے عذاب کے ساتھ ساز گا ر نہیں ہے کیونکہ اس دن تو سب کے سب ایک ہی جگہ حساب کے لیے جمع ہوں گے ، جیساکہ سورہ ہود کی آیہ ۰۳ ۱ میں بیان ہوا ہے کہ : ” ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود “ وہ ایسا دن ہے کہ جس میں تمام لوگ جمع ہوں گے ،اور وہ ایسا دن ہے کہ جس کاسب مشاہد ہ کریں گے “ ۔
اور سورہ واقعہ کی آیت ۴۹ . ۵۰ میں یہ بیان ہوا ہے کہ : ” قل ان الا ولین والاٰخرین لمجموعون الیٰ میقات یوم معلوم “ ” کہہ دے کہ سب اولین و آخر ین ،روز ِ معین کے وقت اکٹھے کیے جائیں گے “ ۔
اس بناء پر ” اخذ وامن مکان قریب “ کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ یہ ستمگر اور بے ایمان لوگ نہ صرف یہ کہ قدرتِ خدا کی حدود سے باہر نکل سکیں گے بلکہ خداانہیں ایسی جگہ سے گرفتار کرے گا کہ جوان سے بہت ہی زیادہ قریب ہوگی ۔
کیافرعونی دریائے نیل کی لہروں میں کہ جواُن کے لیے سرمایہ افتخار تھا ، دفن نہیں ہوئے ؟ اور کیاقارون اپنے ہی خزانوں کے درمیان زمین میں زنہیں دھنسا ؟ اور کیاقومِ سبا، کہ جن کی داستان اسی سورہ میں بیان کی گئی ہے ، نزدیک ترین مکان یعنی اسی عظیم سَد سے کہ جواُن کی آبادی کادل اوران کی زندگی اورحرکت کاسرمایہ تھی .. .گرفتار نہیں ہوئے ؟ ایسی بناء پر خداانہیں بھی نزدیک ترین جگہ سے ہی گرفتار کرے گا تاکہ وہ اس کی قدرت نمائی کو جان لیں ۔
بہت سے ظالم بادشاہ اپنے نز دیک ترین افراد کے ذریعہ قتل ہوئے ، اور نابود ہوگئے ،اوربہت سے قدرتمند ستمگر وں نے اپنے گھر کے اندر ہی آخر ی ضرب کھائی ۔
اور اگر یہ دیکھتے ہیں کہ  بہت سی روایات میں کہ جوشیعہ اور اہل سنت کے وسیلوں سے نقل ہوئی ہیں ،یہ آیت ”سفیانی “ کے خروج اوراُس کے لشکر (وہ گروہ کہ جو ابوسفیانی کے مکتب کے پیرو اور زمانہ جاہلیت کے پسماند گا ن ہیں ، اورحق کے طرفداروں کے خلاف قیام مہدی علیہ السلام کی ابتداء میں خروج کریں گے ) پرمنطبق ہوئی ہے ، کہ وہ مکہ کی تسخیر کے لیے اس کی طرف چلنے کے موقع پر صحرا مین گرفتارِعذاب ہوں گے ،اورزمین میںاس کے شگافتہ ہونے اوران کے اس میں دھنس جانے کے سبب سے شدید زلزلہ اور لرزہ طاری ہوگا .تو یہ حقیقت میں (اخذ وا من مکان قریب ) کے ایک مصداق کا بیان ہے ، کہ وہ اسی نقطہ سے کہ جوان کے پاؤں کے نیچے ہے عذاب ِ الہٰی کے چنگل میں گرفتار ہون گے ۔
اس حدیث کامضمون ”ابن ِعباس “ . ” ابنِ مسعود “ . ” ابوہریرہ “ . ” ابوحذیفہ “ . ” امِ سلمہ “ اور حضرت عائشہ نے ، اس کے مطابق کہ جو اہل سنت کی کتابوں میں آیاہے ، پیغمبرِ گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاہے (۲) ۔
اوربہت سے شیعہ مفسرین مثلاً ” مجمع البیان “ . ” نوارلثقلین “ . ” صافی “ نے اورا ہل سنت کے مفسرین کی ایک جماعت مثلاً ” روح البیان “اور ” قرطبی “ کے مئولفین نے بھی اس کو زیر ِ بحث آیات کے ذیل میں نقل کیاہے ۔
مرحوم علامہ مجلسی نے متعدد روایات بحار الا نوار میں امام محمد باقر علیہ السلام اور پیغمبرگرامی السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس سلسلہ میں نقل کی ہیں کہ جواس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ زیر ِبحث آیات کے مصادیق میں سے ایک قیامِ مہدی علیہ السلام کے وقت ”خروجِ سفیانی “ کا مسئلہ ہے کہ جس کوخدا (اس کے لشکر سمیت ) نزدیک ترین جگہ سے گرفتار عذاب اور نابود کردے گا (۳) ۔
جیساکہ ہم نے بار ہا کہاہے کہ جوروایات آیات کی تفسیر میں وراد ہوتی ہیں وہ زیادہ ترواضح مصادیق کوبیان کرتی ہیں ،اوروہ ہرگز یات کے مفہوم کومحدود کرنے کی دلیل نہیں ہیں ۔
بعد والی آیت میں ، ان کے عذابِ الہٰی کے چنگل میں گرفتار ہونے کے وقت ان کی حالت کی کیفیت کوبیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” وہ کہیں گے کہ ہم اس (قرآن ،اس کے لانے الے اور مبداٴ و معاد ) پر ایمان لائے “ ( و قالو ا اٰ منا بہ ) (۴) ۔
” لیکن وہ اس دور دراز کے فاصلہ سے اس پر کس طرح دسترس حاصل کرسکیںگے “ (وَ اٴَنَّی لَہُمُ التَّناوُشُ مِنْ مَکانٍ بَعیدٍ ) ۔
ہاں ! موت اورعذابِ استیصال کے آجانے پرباز گشت کے دروازے کلی طور پر بند ہوجاتے ہیں ، اورانسان اور گزشتہ غلط کار یوں کی تلافی کے درمیان ایک محکم رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے ، اسی بناء پر اس وقت ایمان کااظہار کرناایسا ہوگا جیساکہ یہ بات کسی دور دراز مقام سے انجام پائے جہاں ہاتھ نہ پہنچ سکتاہو ۔
اصولی طور پر اس قسم کاایمان ... کہ اضطراری پہلو رکھتاہو ، اور اُس عذاب کے حد سے زیادہ خوف کی وجہ سے ہو ، جسے وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں .. . کوئی وقعت نہیں رکھتا ،لہٰذ ا قرآن کی دوسری آیات میں یہ بیان کیاگیاہے کہ : ” یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، اگر یہ پلٹ جائیں توپھر انہیں پر وگراموں پرعمل کرنے لگیں گے “ (انعام ، ۲۸) ۔
” تناوش “ مادہ ”نوش “ (بروزن خوف ) کسی چیز کوپکڑ نے کے معنی میں ہے اوربعض نے سہولت کے ساتھ پکڑ نے کے معنی میں لیا ہے ، یعنی وہ ایس دُور دراز کے ہدف تک آسانی کے ساتھ کیسے پہنچ سکتے ہیں ۔
اس وقت جبکہ تمام چیزیں ختم ہوگئی ہیں وہ ایمان لاکر اپنی خطاؤں کی تلافی کیسے کرسکتے ہیں . ” حالانکہ وہ اس سے پہلے (جبکہ وہ انتہائی اختیار اور ارادہ کی آزادی کے مالک تھے ) ” اس سے کافرہوگئے تھے “ (وَ قَدْ کَفَرُوا بِہِ مِنْ قَبْل) ۔
وہ نہ صرف کافرہی ہوئے تھے بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم اوران کی تعلیمات پرطرح طرح کی تہمتیں باند ھتے تھے ،اور عالم ِغیب .عالم ماوار ، طبعیت ،قیامت اور پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت . کے بارے میں ناروا فیصلے کیاکرتے تھے ،اور دور دراز مقام سے اس کی طرف نارو انسبتیں دیتے تھے . ” وَ یَقْذِفُونَ بِالْغَیْبِ مِنْ مَکانٍ بَعید“ ۔
” قذف “ جیساکہ ہم نے بیان کیاہے ،کسی چیز کو اٹھاکر پھینکنے کے معنی میں ہے . اور ”غیب “ عالمِ ماورا حس کے معنی میں ہے ، اور ” مکان بعید “ دور کی جگہ کے معنی میں ہے ،اور مجموعی طور پر یہ ایک لطیف کنایہ ہے ،ایسے شخص کے بارے میں کہ جوعالمِ ماورا ء طبعیت کے لےے آگا ہی واطلاع کے بغیر فیصلہ کرے . جیساکہ دو ر کی جگہ سے کسی چیز کوپھینکنا بہت ہی کم نشانہ پر لگتا ہے ، اسی طرح ان کا یہ ظن وگمان اور فیصلہ بھی ہدف اور نشا نہ پر نہیں لگتا ۔
وہ کبھی توپیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوساحر اور جادو گر کہتے تھے ، کبھی ”دیوانہ “ کبھی کذاب (جھوٹا ) کبھی قرآن کوانسانی فکر سے گھڑا ہوا کلام جانتے تھے ، اورکبھی جنت ، جہنم اور قیامت کاکلی طور پر انکار کر دیتے تھے . یہ تمام باتیں ایک قسم کا ”غیب کے بارے میں اٹکل پچوباتیں بنانا “ اور ” تاریکی میں تیر پھینکنا “ اور ”دور دراز کے مکان سے پھینکنا “ ” قذف من مکان بعید “ تھا ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے کہ : آخر کار ان کے اور ان تمام چیزوں کے درمیان کہ جن سے وہ علاقہ و تعلق رکھتے تھے ،موت کے ذریعہ جدائی ڈالی دی جائے گی ، جیساکہ ان کے مانند ومشابہ گروہوں کے ساتھ اس سے پہلے عمل ہوا “ ( وَ حیلَ بَیْنَہُمْ وَ بَیْنَ ما یَشْتَہُونَ کَما فُعِلَ بِاٴَشْیاعِہِمْ مِنْ قَبْلُ ) ۔
ایک ہی درد ناک لمحہ دیکھیں گے کہ ان کاتمام مال ودولت ،تمام محلات او مقام و منصب اوران کی تمام آرزوئیں اور تمنائیں اُن سے جدا ہورہی ہیں وہ لوگ کہ جوایک ایک پیسے کے ساتھ (ایک ایک درہم ودینا ر سے ) سختی کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ،اورمعمولی سے معمولی مادی وسائل واسباب سے بھی دل کو الگ نہیں کرتے تھے ، ان کااس لمحہ میں . کہ جس میں انہیں ایک ہی مرتبہ سب کو الوداع کہنا پڑے گا ، آنکھیں بند ہوجائیں گی اورایک تاریک اور وحشت ناک مستقبل کی طرف قدم اٹھارہے ہوں گے . کیاحال ہوگا ! 
” حبل بینھم وبین مایشتھون “ (ان کے اوران تمام چیزوں کے درمیان کہ جن سے وہ علاقہ و تعلق رکھتے تھے جدائی ڈال دی جائے گی ) کے جملہ کے لیے دو تفسیر یں بیان کی گئی ہیں : 
پہلی تفسیر تو یہی ہے کہ جو اوپر بیان کی گئی ہے .دوسری تفسیر یہ ہے کہ کہ وہ چاہیں گے کہ ایمان لے آئیں ، اور گزشتہ کی تلافی کریں ، لیکن ان کے او ر ان کی اس خواہش کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی ۔
لیکن پہلی تفسیر ” مایشتھون “ والے جملہ کے معنی کے ساتھ زیادہ موت اورعذابِ استیصال گزشتہ آیات میں ” انیّ لھم التنا وش من مکان بعید “ کے جملہ میںموت اورعذاب ِ استیصال کے وقت ایمان پر ان کی دسترس نہ ہونے کا مسئلہ بیان ہوا تھا ، لہذا اس کے تکرار کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس نکتہ کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتاہے ، کہ بہت سے مفسرین نے ان آیات کوروزِ قیامت کے عذاب اورعرصہ محشر میں گنہگار وں کی ندامت سے متعلق جانا ہے . لیکن جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ آخر ی زیربحث آیت میں ” کما فعل باشیا عھم من قبل “ کے جملہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ، یہ معنی مناسب نہیں ہیں ، بلکہ اس سے مراد موت کالمحہ ، اورخدا کی طرف سے نابود کرنے والے عذاب کامشاہدہ ہی ہے ۔
اور امیر المئو منین علی علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے ، اور جان کنی کے لمحات ، اور دنیا کی نعمتون سے جدائی کی اپنے نورانی کلمات میں بہت ہی واضح طریقہ سے تصویر کشی کی ہے : 
” اجتمعت علیھم سکرة الموت ، وحسرة الفوت ، ففترت لھا اطرافھم ، و تغیرت لھام الوانھم ! 
ثم ازاد الموت فیھم ولوجاً ،فحیل بین احدھم وبین منطقہ ،وانہ لبین اھلہ ،ینظر ببصرہ و یسمع باذنہ ... ! 
یفکر فیم افنا عمرہ ؟ وفیم اذھب دھرہ ؟ ویتذ کر اموالاجمعھا اغمض فی مطالبھا ، و اخذ ھامن مصر حاتھا ومشتبھا تھا ... ! 
فھو یعض یدہ ندا مة علی ما اصحرلہ عند الموت من امرہ ،ویذھد فیما کان یرغب ایام عمرہ ، ویتمنی ان الذی کان یغبطہ بھا ویحسدہ علیھا قد حازھا دونہ ! “ 
”سکرات موت ، اوردنیا کی نعمتوں کوہاتھ سے کھونے کی حسرتیں ان کے اوپر حملہ آور ہوجاتی ہیں ،ان کے بدن کے اعضاء سست ہوجاتے ہیں ،اورا ن کے چہرے کا رنگ اڑجاتا ہے ۔
اس کے بعد موت کاپنجہ ان کے اندر اور زیادہ نفوذ کرنے لگتا ہے . اس طرح سے کہ ان کی زبان کام کرنا بند کر دیتی ہے ، اس حالت میں کہ وہ اپنے گھر والوں کے درمیان پڑا ہوا ہوتاہے ، آنکھ سے دیکھ رہاہوتا ہے ،اورکان سے سُن رہا ہوتا ہے ،(لیکن اس میں بات کرنے کی طاقت باقی نہیں رہتی ) ۔
وہ یہ سوچ رہاہوتا ہے کہ اس نے اپنی عمر کوکس راہ میں تباہ کردیا؟ اپنی زندگی کاوقت کس راہ میں گزار ا؟ اوراس کے حصول کے طریقے کے بارے میں کبھی بھی نہ سو چاتھا ۔
انگشتِ حسرت منہ میں رکھتاہے ،اور پنا ہاتھ پشیمانی سے کاٹتا ہے کیونکہ مو ت کے وقت وہ مسائل اس پر روشن ہوجاتے کہ جو اس وقت تک مخفی و پوشیدہ تھے ، وہ اس حالت میں ان تمام چیزوں سے کہ جن کے ساتھ وہ زندگی کے ایام میں شدّت سے علاقہ اور لگا ؤ رکھتا تھا بے اعتنا ء ہوجائے گا . اور یہ آرزو کرے گا کہ اے کاش ! وہ لوگ کہ جو اس کی ثروت اور مال و دولت پر رشک اورحسد کیاکرتے تھے یہ مال اس کی بجائے ان کے قبضہ میں ہوتا “ (۵ ) ۔
آخر میں آخری زیرِبحث آیت کے آخری جملہ میں کہتا ہے کہ : 
” ان سب مسائل کاسبب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ شک وشبہ کی حالت میں زندگی بسرکرتے تھے ، لہٰذا طبعاً اس قسم کانجام ان کے انتظار میں تھا “ ( إِنَّہُمْ کانُوا فی شَکٍّ مُریب) ۔
پروردگارا ! ہمیں ان لوگوں سے قرار دے کہ جواو قات کے ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے بیدار وجاتے ہیں ، اورجوکچھ ان سے فوت ہوچکاہے اس کی تلافی کرتے ہیں ۔
بار الہٰا ! دنیا کاجال بڑا سخت ہے اوردشمن طاقت ور اور قوی ہے .اگر تیرا لطف وکرم شاملِ حال نہ ہو اور ہماری مدد نہ کرے توہمارا حا ل خراب ہے ۔
خداوندا ! ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جو نعمتوں کے ملنے کے وقت ان کاشکر ادا کرتے ہیں ،اور مغرور وغافل نہیں ہوتے ، اور مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت آہ وزاری نہیں کرتے ، بلکہ عبرت حاصل کرتے ہیں ۔
۱۔ ”ولو ترٰی “ جملہ شرطیہ ہے اوراس کی جزا ء محذوف ہے اور اس کی تقدیراس طرح ہے : ” لراٴیت امراً اعظیما ً “ . یا ”لعجبت من احوالھم “ (تُو ایک امر عظیم دیکھتا . یاان کے حالات پرتعجب کرتا ) ۔
۲۔ تفسیر المیزان ،جلد ۱۶ ،ص ۴۱۹۔
۳۔ بحار الا نوار . جلد ۵۲ ،ص ۱۸۵ سے بعد (باب علامات ظہور مہدی علیہ السلام من السفیانی واا رجال ) ۔
۴۔ ”بہ “ کی ضمیر ”حق “ کی رف لوٹتی ہے ،کہ جواس سے قریب ترین مرجع ہے ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ آیات میں ”حق ‘ ‘ . قرآن اوراس کے مضا مین اور مبداء ومعاد اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معنی میں ہے ۔
۵۔ ” نہج البلاغہ “خطبہ ۱۰۹۔