Tafseer e Namoona

Topic

											

									  سوال

										
																									
								

Ayat No : 47-50

: سبأ

قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ۴۷قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ۴۸قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ۴۹قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ ۵۰

Translation

کہہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رہا ہوں وہ بھی تمہارے ہی لئے ہے میرا حقیقی اجر تو پروردگار کے ذمہ ہے اور وہ ہر شے کا گواہ ہے. کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار حق کو برابر دل میں ڈالتا رہتا ہے اور وہ برابر غیب کا جاننے والا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ حق آگیا ہے اور باطل نہ کچھ ایجاد کرسکتا ہے اور نہ دوبارہ پلٹا سکتا ہے. کہہ دیجئے کہ میں گمراہ ہوں گا تو اس کا اثر میرے ہی اوپر ہوگا اور اگر ہدایت حاصل کرلوں گا تو یہ میرے رب کی وحی کا نتیجہ ہوگا وہ سب کی سننے والا اور سب سے قریب تر ہے.

Tafseer

									یہاں ایک سوال پیداہوتا ہے اوروہ یہ ہے کہ اوپر والی آیت یہ کہتی ہے ، کہ حق کے ظہور کے ساتھ باطل رنگ باختہ ہو کر کلی طور پر کوئی نئی بات ایجاد کر نے سے باز آجاتا ہے ، حالانکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ باطل ابھی تک مصررفِ کار ہے اور بہت سے علاقوں کوا پنے زیر ِ تسلط قرار دیئے ہوئے ہے ؟ ۔

جواب 

اس کے جوا ب میں اس نکتہ کی طرف توجہ رکھنی چاہیئے کہ اولاً : توحق کے ظاہر ہونے اوراس کے آشکار ہونے سے باطل یعنی شرک وکفر ونفاق اور جن جن کا وہ سرچشمہ ہے ،بے رنگ ہو جاتے ہیں ،اور اگروہ اپنی زندگی کوجاری بھی رکھیں تووہ بھی زور وظلم اور دباؤ کے طریقہ سے ہوگ. ورنہ اس کے چہرے سے نقاب ہٹ جائے گا اوراس کا مکر وہ چہرہ حق کے متلاشیوں کے لیے آشکار ہوجائے گا ، اورحق کے آنے باطل کے محو ہوجانے سے یہی مراد ہے ۔
ثانیاً : حق کی حکومت کے قیام ،اورسارے عالم میں باطل کی حکومت کے زوال کے لیے ، اُن امکانات و وسائل کے علاوہ کہ جوخدا نے بندوں کے اختیار میں دیئے ہیں ، ایسے شرائط وحالات کا وجود بھی ان کی طرف سے ضروری ہے کہ جن میں سے اہم ترین چیز ان امکانات ووسائل سے استفادہ کے لیے مقدمات کی ترتیب دینا ہے ۔
دوسر ے لفظون میںحق کی باطل پر کامیابی نہ صرف مکتبی ،منطقی و ہدفی پہلوؤں میں ہے ، بلکہ اجرائی پہلوؤں میں دو بنیادوں پرقرار پاتی ہیں ، ’فاعلیت فاعل “ اور ” قابلیت قابل “ اور اگر قابلیتوں کے نہ ہونے کے باعث اجرا ء کے مرحلہ میں کا میابی سے ہمکنار نہ ہوتو حق کی عدم کامیابی کی دلیل نہیں ہے ۔
مثال کے طور پر جیساکہ قرآن کہتا ہے : ” ادعونی استجب لکم “ مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری دعاؤں کوقبول کروں “ (مئومن . ۶۰) لیکن ہم جانتے ہیں کہ دعا کی قبولیت بے قید وشرط نہیں ہے ، اگر اس کے شرائط حاصل ہوجائیں تواس کی اجابت قطعی ویقینی ہے ، ور نہ اس صورت کے علاوہ اجابتو قبولیت کی توقع نہیں ہو ناچاہیےٴ . اس معنی کی تشریح سورہ بقرہ کی آیہ ۱۸۶ کے ذیل میں ( جلد اول میں آچکی ہے ) ۔
یہ ٹھیک اس طرح ہے کہ ہم ایک حاذق اور ماہر طبیب وڈاکڑ کو ایک مریض کے پاس لائیں ،اور ہم کہیں کہ تیری نجات کے اسباب فراہم ہوگئے ہیں ، اور جب ہم اس کی دوا بھی مہیاکردیں ، توہم کہتے ہیں کہ اب تیری مشکل حل ہوگئی . حلانکہ یہ سب چیزیں تووہ ہیں کہ جومقتضی تھیں ، نہ کہ علت تامہ . بیمار کے لیے ضروری ہے کہ وہ دواسے استفادہ کرے اور طبیب کی شرائط پرکا بند ہو ، اوروہ پرہیز کہ جو ضروری و لازمی ہیں ان کو نہ بھولے ،تاکہ شفا کاحصول یقینی بن جائے ۔ ( غور کیجئے ) 
اس کے بعد اس بنا ء پر کہ وہ یہ واضح کردے کہ جوکچھ وہ کہہ رہا ہے خدا کی طرف سے ہے اورہر ہدایت خدا کی جانب سے ہے ، اوروحی الہٰی میں ہر گز خطا گزر نہیں ہے . مزید کہتا ہے کہ : ” کہہ دے کہ اگر میں گمراہ ہوجاؤں تو میں خود اپنی طرف سے گمراہ ہوں گا ، اوراگر میں ہدایت پاؤ ں تو میں اُس چیز کے ذریعے سے کہ جو میرے پروردگار نے مجھے وحی کی ہے ہدایت پاؤں گا “ (قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّما اٴَضِلُّ عَلی نَفْسی وَ إِنِ اہْتَدَیْتُ فَبِما یُوحی إِلَیَّ رَبِّی) (1)۔
یعنی میں بھی اگراپنی حالت پررہوں توگمراہ ہوجاؤں گا ،کیونکہ باطل نے انبوہ میں سے راہ ِ حق کو تلاش کرناپرور دگار کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے . اور ہدایت کا وہ نور کہ جس میں گمراہی کاکوئی گزر نہیں ہے ، اس کی وحی کا نور ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ عقل ایک پر فروغ ہے ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان معصوم نہیں ہے اوراس چراغ کی شعاو ظلمت کے تمام پردوں کونہیں چیز سکتی پس آؤ اور تم بھی اس وحی الہٰی کے دامن میںہاتھ ڈالوتاکہ وادی ظلمات سے نکل سکو ،اورسرزمین نور میں قدم رکھو ۔
بہرحال جہان پیغمبرباوجو اپنے پورے علم و آگاہی کے خدا کی ہدایت کے بغیر کسی جگہ پر نہیں پہنچتا تو دوسروں کامعا ملہ توظاہر اور روشن ہے ۔
آیت کے آخر میں مزید کہتا ہے : ” وہ سننے والا اور نز دیک ہے “ (انہ سمیع قریب ) ۔
کہیں یہ خیال نہ کر لینا کہ وہ ہماری اور تمہاری باتوں کونہیں سنتا ، یاسنتا تو ہے لیکن ہم سے دُور ہے ، ایسا نہیں ہے ، وہ سنتا بھی ہے ،اور نزدیک بھی ہے ، اس بناء پر ہماری گفتگو ؤں اورخواہشات کا ایک ذرہ بھی اس سے مخفی نہیں رہ سکتا ۔
1۔ اس بار ے میں کہ پہلے جملہ میں ” علیٰ “ کیوں لایا (علیٰ نفسی ) اور دوسرے جملہ ین ”با“ ( فبما یوحی الیّ ربی ) بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ ان جملوں میں سے ہرایک میں محذوف ہے کہ جو ایک دوسرے قرینہ کی وجہ سے حذف ہوا ہے اوراس کی تقدیراس طرح تھی ، ” ان ضللت فانما نفسی وان اھتد یت فانما اھتدی لنفسی بما یوحی الی ربی “ اگر میں گمراہ ہوجاؤں تو میںخود سے گمراہ ہوا ہوں ، اور اگر میں ہدایت پاؤں تو میر ے نفس نے اس چیز سے ہدایت حاصل کی ہے کہ جومیرے پرور دگار نے میری طرف وحی کی ہے ۔ ( غو ر کیجئے ) تفسیر روح المعانی ، زیربحث آیت کے ذیل میں ۔