Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اعمال کی درستی کے لیے حق بات کیا کرو

										
																									
								

Ayat No : 69-71

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا ۶۹يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ۷۰يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ۷۱

Translation

ایمان والو خبردار ان کے جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسٰی علیھ السّلام کو اذیت دی تو خدا نے انہیں ان کے قول سے بری ثابت کردیا اور و ہ اللہ کے نزدیک ایک باوجاہت انسان تھے. ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو. تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا.

Tafseer

									  اعمال کی درستی کے لیے حق بات کیا کرو :
 جب افواہ پھیلانے والوں اور زبان سے ایذا پہنچانے والوں کے بارے میں گفتگو ہوچکی تو اس کے بعد والی آیت ایک حکم صادر کرتی ہے جو درحقیقت اس عظیم معاشرتی مسئلے کا علاج ہے ، چنانچہ خدا فرماتا ہے "اے وہ لوگو! جو ایمان لے آئے ہو ، خدا کا تقوٰی اختیار کرو اورحق بات کیا کرو (یا ایھا الذین آمنوا اتقوا الله وقولوا قولأسديدا)۔ 
 "سدید" "سد" کے مادہ سے ہے ، جس کا معنی ہے " محکم اور استوار" جس میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہوسکے ۔ اور وہ قول جوحق اور واقعے کے مطابق ہو ، جومحکم ستد (بند) کی طرح باطل کی موجوں کو روک دیتا ہے۔ 
 بعض مفسرین نے اسے "صواب" (درست) کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے جھوٹ اور لغو سے پاک ہونے ، نیز بعض نے ظاہر اور باطن کے ہم آہنگ ہونے اور "ٗصلاح و رشاد" وغیرہ کے معنی میں اس کی تفسیر کی ہے۔ یہ سب معانی مذکورہ بالا جامع معنی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ 
 بعد والی آیت "قول سدید" اور" حق بات" کا نتیجہ یوں بیان کرتی ہے ۔ خداوندا عالم تقوٰی اورحق بات 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1         نورالثقلین جلد 4 ص 308۔ 
  ؎2         تفسیرنورالثقلین جلد 4 ص 309۔ 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کی بناء پر تمھارے اعمال کی اصلاح کرتا اور تمھارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے": (يصلح لكم أعمالكم  ويغرلكم ذنوبكم)۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ ، اصلاح زبان کی بنیاد اور حق بات کا سرچشمہ ہے اور حق بات اصلاح اعمال کے موثر عوامل میں سے ہے ، اور اصلاح اعمال گناہوں کی بخشش کا سبب ہے کیونکہ: 
  "ان الحسنات يذهبن السیئات"۔ 
  "نیک اعمال گناہوں کو ختم کر دیتے ہیں"۔   (ہو / 114 ) 
 علماء اخلاق نے کہا ہے کہ زبان بدن کا سب سے زیادہ بابرکت عضو اور اطاعت، ہدایت اور اصلاح کا سب سے موثر وسیلہ ہے اور اس کے باوجو بدن کے سب سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ گناہگار کاعضو بھی شمار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ تیس گناہان کبیرہ اس چھوٹے سے عضو سے جنم لیتے ہیں ۔ ؎1 
 ایک اور حدیث میں پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: 
  "لايستقيم ایمان عبد حتی يستقيم قلبه ولا يستقتیم قلبه 
  حتٰی يستقیم لسانه"۔ 
  "کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل راست نہ ہو اوردل 
  اس وقت تک سیدھا نہیں ہوسکتا، جب تک اس کی زبان سیدھی نہ ہو"۔ ؎ 2 
 ایک اور قابل توجہ حدیث ہے جو امام زین العابدین علیہ اسلام سے مروی ہے، آپؑ فرماتے ہیں: 
  "ہر شخص کی زبان روزانہ صبح کے وقت تمام دوسرے اعضاء کی احوال پرسی اور خیریت دریافت کرتی ہے اور 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
  ؎1      امام غزالی نے "احیاوالعلوم" میں بیس ایسی لغزیشیں جو زبان سے سرزد ہوتی ہیں یا گناہان کبیرہ جن کا تعلق زبان سے ہوتاہے ذکر کیے ہیں۔ ا- جھوٹ . 2- غیبت. 3-چغل خوری 4- زبان سے منافقت کا اظہار  5. بے جا مدح و ثنا (خوشامد)6- بدزبانی اور گالی دینا 7- غنا اور غلط اشعار - 8. مزاح میں حد سے تجاوز . 9- مسخرہ پن اوراستهزاء۔ 10- دوسروں کے راز فاش کرنا۔  11-  وعدہ خلافی کرنا - 12. بے جا لعنت کرنا - 13 - لڑئی جھگڑا  14 - باطل امور میں گفتگو. 15 - زیادہ باتیں کرنا ۔ 17- ایسے امور کے بارے میں گفتگو کرنا جو انسان سے متعلق نہیں ہیں . 18-  شراب، جوا اور گناہ کی دوسری محفلوں میں تعریف کرنا. 19. ایسے مسائل کے بارے میں سوال اور جستجو جو انسان کے ادراک سے لر راه ہیں - 20-  بات کرنے میں تصنع و تکلیف سے کام لینا۔ اس کے علاوہ دس اور چیزوں کا ہم اضافہ کرتے ہیں۔ 1- تہمت لگانا۔ 2 جھوٹی گواہی دینا ۔ 3- فحاشی اور بے بنياد افواہیں پھیلانا - 4 - خود ستائی ۔ 5- بے جا اصرار ۔ 6 ۔ گفتگومیں سختی کرنا۔ 7- زبانی ایذارسائی ۔ 8- ایسے شخص کی مذمت کرنا جو مذمت کا مستحق نہ ہو۔ 9 - زبان کے ساتھ کفران نعمت کرنا۔ 10 - باطل کا پرچار 
  ؎2    بحارالانوار جلد 17 ص 78 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
کہتی ہے، كيف اصبحتم؟ 
 "تم نے کیسے صبح کی؟" 
 وہ سب زبان کے اظہار محبت کے جواب میں کہتے ہیں : "بخیران تركتنا"! 
 "خیریت ہے، اگر تو نے رہنے دی"۔
 پھروه مزید کہتے ہیں : تجھے ہم خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ ہمارا خیال رکھتا۔ 
  "وانما نثاب بک و نعاقب بک "
  "ہمیں تیرے ذریعے ثواب ملے گا اور تیری ہی وجہ سے عذاب"۔ ؎1 
 اس سلسلے میں بہت سی روایات ہیں جو سب کی سب زبان کے انتہائی زیادہ اثرات پر دلالت کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ انسانی نفوس کی تہذیب اور اصلاح اخلاق میں زبان کا بڑا کردار ہے۔ اسی بناء پر ایک حدیث میں ہے :
  " ما جلس رسول الله علٰى هذا المنبر قط الاتلاهذه الأیة یا ایها الذین 
  امنوا اتقوالله وقولوا قولا سديدا"۔ 
  "جب بھی رسول اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منبر پر تشریف فرما ہوتے ، تو اس آیت کی تلاوت 
  فرماتے اے وہ لوگو! اجرا ایمان لائے ہو، خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور سچی بات کہو۔ ؎2
 آیت کے آخر میں قرآن کہتا ہے۔ "جوشخص خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ بہت بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوگا"۔ ( ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما)۔ 
 کونسی کامیابی اس سے بالاتر ہوگی کہ انسان کے اعمال پاک ہوں ، اس کے گناہ بخشے جائیں اور بارگاہ رب العزت میں سرخرو اور سرفراز ہوکرپیش ہو۔ ہو۔