حضرت موسٰی علیہ السلام پر ناروا تہمتیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا ۶۹يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ۷۰يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ۷۱
ایمان والو خبردار ان کے جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسٰی علیھ السّلام کو اذیت دی تو خدا نے انہیں ان کے قول سے بری ثابت کردیا اور و ہ اللہ کے نزدیک ایک باوجاہت انسان تھے. ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو. تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا.
تفسیر
حضرت موسٰی علیہ السلام پر ناروا تہمتیں:
گذشتہ آیات میں پیغبراسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے احترام اور آپ کو کسی قسم کی اذیت نہ دینے کے حکم کے فورًا بعد ان آیات میں روئے سخن مومنین کی طرف کرکے قران کہتا ہے"۔ اے وه لوگو جوایمان لائے ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسٰی کو اذیت پہنچائی ۔ لیکن خدا نے موسٰی کو ان تمام ناروانسبتوں سے مبرا اور پاک قراردیا اوروہ بارگاہ خداوندی میں آبرومند عظیم منزلت کے مالک تھے": (یا ایها الذین آمنوا لاتكونوا كالذين اٰذ وا موسٰی فبراه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها).
اذیت پانے والے انبیا میں سے حضرت موسٰی علیہ اسلام کا انتخاب اس بناء پر ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے جتنی تکلیف حضرت موسٰی علیہ اسلام کو دی اتنی کسی اور نبی کو نہیں پہنچائی ۔ پھر کچھ تکلیفیں ایسی تھیں جو ان منافقین کی تکلیفوں سےملی جلتی تھیں جو وہ رسول اسلام کو دیتے تھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسٰی علیہ اسلام کو تکلیف دینے سے کیا مراد ہے؟ قرآن مجید نے اسے کیوں مجمل طور پر بیان کیا ہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء نے کئی احتمال ذکر کیے ہیں۔ جن میں سے بھی ہیں:
1- ایک روایت کے مطابق حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ ایک پہاڑ کی چوٹی پر گئے اور حضرت ہارونؑ کی وہاں پروفات ہوگئی ۔ افواہیں پھیلانے والے بنی اسرائیلیوں نے ان کی موت کا الزام حضرت موسٰی پر رکھ دیا۔ مگر خدا نے حقیقت امر کو واضح کر دیا اور پروپیگنڈا کرنے والوں کی قلعی کھول دی ۔
2- جیسا کہ سورہ قصص کی آخری آیات کے ذیل میں یہ تفصیل سے بیان کرچکے ہیں کہ مکار قارون نے زکوة سے بچنے اور فقراء و مساکین کے حقوق ادا نہ کرنے کے لیے ایک سازش تیارکی اور وہ یہ کہ ایک بدکار عورت کو تیار کیا گیا کہ وہ اپنے غیر مشروع روابط کے نام پر حضرت موسٰی علیہ اسلام پر تہمت لگائے ، لیکن خدا کی مہربانی سے نہ صرف یہ کہ سازش کاگر ثابت نہ ہوئی ، بلکہ اس شیطانی منصوبے کے برخلاف اس عورت نے حضرت موسٰی کی پاکدامنی کی گواہی دے کر قارون کی سازش کو طشت از بام کردیا۔
3- حضرت موسٰی علیہ اسلام کے دشمنوں کے ایک ٹولے نے انھیں جادو ، جنون اور خدا پر جھوٹ کی تہمت باندھنے کا الزام دیا۔ لیکن خدا نے انھیں واضح معجزات کے ذریعے ان ناروا نسبتوں سے مبرا اور پاک قرار دے دیا۔
4- بنی اسرائیل کے جاہلوں کی ایک جماعت نے حضرت موسٰی علیہ اسلام کو برص وغیرہ جیسے چند ایک جسمانی عیوب سے مہتم کیا ، کیونکہ آپ نہانے دھونے کے وقت اپنے کپڑے سے لوگوں کے سامنے نہیں اتارتے تھے، چنانچہ ایک دن انھوں نے نہانے کی غرض سے لوگوں سے دور جاکر کپڑے اتارے اور ایک پتھر پر رکھ دیئے اور وہ پھتر کپڑے کے چل دیا اور بنی اسرائیل نے ان کے بدن کو دیکھ لیا کہ اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔
5- بنی اسرائیل کی حیلہ سازی حضرت موسٰی علیہ اسلام کی تکلیف کا ایک اور عامل تھی ۔ کبھی تو وہ تقاضا کرتے کہ انھیں خدا کا دیدار کرایا جائے ، کبھی کہتے کہ من و سلوٰی جیسی غذا ہمارے لیے مناسب نہیں ہے ، کبھی کہتے کہ ہم اس بات کے لیے تیار تو نہیں ہیں کہ بیت المقدس میں داخل ہو کر عمالقہ کے ساتھ جنگ کریں ، تو اور تیرا پرو دگار جاؤ اس جگہ کو فتح کرو۔ پھر ہم بعد میں آجائیں گے۔
لیکن جو کچھ آیت کے معنی میں زیادہ قریب ہے وہ یہ ہے کہ آیت کی کلی اور جامع حکم بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ اسلام کو اس کومختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے تھے ، جو مدینہ کے لوگوں کی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی گئی بعض اذتیوں کہ مشابہ تھیں ، افواہیں پھیلاتے ، طرح طرح کے جھوٹ گھڑتے اور آپ کی ایک بیوی کی طرف ناروا نسبت جیسی اذیتیں کہ جس کی تفصیل سورہ نور کی تفسیر (تفسیر نمونہ جلد 14 ذیل آیه 11 تا 20 ) میں گزر چکی ہے۔ یا جیسے وہ اعتراضات نے جو رسول اسلام صلی الله علیہ وسلم کے زینب سے اندراج کے بارے میں تھے۔ یا وہ تکلیفیں جو آپ کے گھر میں آکر پہنچاتے یا غیر مہذب طریقے سے آپ کو پکارنے کے سلسلے میں اذیتیں تھیں۔
باقی رہا سحروجنون وغیرہ کی نسبت یا بدنی عیوب کی بات اگرچہ یہ تہمتیں حضرت موسٰی کے بارے میں تھیں۔ لیکن " یا ایها الذين امنوا" کا خطاب پیغمبراسلام کے بارے میں مناسبت نہیں رکھتا ، کیونکہ مومنین نے نہ تو ٓحضرت موسٰیؑ کو اور نہ ہی حضرت محمد مصطفٰےؐ کو سحر و جادو سے کبھی متہم کیا اور اس طرح جسمانی عیوب کا اتہمام بالغرض حضرت موسٰی کے بارے
میں تھا۔ اور خدا نے انھیں مبرا کیا ، لیکن پیغمبراسلام کے بارے میں تاریخ کوئی مثال پیش نہیں کرتی۔
بہرحال اس آیت سے یہ استفادہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ جس وقت کوئی شخص بارگاہ خداوندی میں آبرومند اور صاحب قدرومنزلت ہو تو خداوند عالم موذی لوگوں کی ناروا تہمتوں سے اس کا دفاع اور حمایت خود کرتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کا اپنا دامن صاف ہو اور اللہ تعالی کے حضوراپنی آبرومندی کا بھی پاس کرے ، تو وہ بھی یقینًا انسان کی پاک دامنی کو مناسب موقع پر ظاہر کردیتا ہے ۔ اگرچہ بدخواہ قسم کے لوگ تہمت لگانے میں ایڑی چوٹی کا زور ہی کیوں نہ لگا دیں۔
ہم نے اس بات کی تصدیق پاک دامن یوسف علیہ اسلام کی داستان میں دیکھی ہے کہ کس طرح خدا نے انہیں عزیز مصر کی زوجہ کی خطرناک تہمت سے بری کردیا ۔
اسی طرح جناب عیسٰیؑ کی والدہ حضرت مریمؑ کے بارے میں ہے کہ جن کے نوزاد شیرخوار نے ان کی پاکی داماں اور عفت کی گواہی دی اور ان بدطینت اسرائیلیوں کی زبان بند کر دی جوانھیں متہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب زمانہ پیغمبر کے مومنین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ان کے بعد بھی عرصه وجود میں قدم رکھیں اور ایسا کا کریں کہ آپؐ کی روح مقدس کو رنجیدہ اور آزردہ کر دے ، آپؐ کے دین کو حقیر سمجھیں ، آپ کی تمام زحمات کو برباد کردیں ، آپؐ کی میراث کو بھلادیں ۔ تو یہ آیت ان کے لیے بھی ہوگی۔
اسی لیے بعض روایات جو اہل بیتؑ سے وارد ہوئی ہیں ان میں ہے کہ "جن لوگوں نے حضرت علیؑ اور ان کی اولاد کو تکلیف پہچائی سے وہ بھی اس آیت کے مشمول ہیں"۔ ؎1
اس آیت کی تعبیر کے سلسلہ میں آخری بات یہ ہے کہ جب ہم خدا کے عظیم پیغمبروں کے حالات کی طرف توجہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ بھی جاہل اور منافق قسم کے لوگوں کی زبان کے زخم سے محفوظ نہیں تھے تو کسی کو ہہ تواقع نہیں رکھنا چاہیئے ،م کہ پاک اور مومن لوگ اس قسم کے افراد سے محفوظ رہیں گے ، جیسا کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ اسلام فرماتے ہیں:
" ان رضا الناس لا يملك والسنتهم لاتضبط "۔
"نہ تو تمام لوگوں کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تمام لوگوں کا منہ بند کیاجاسکتا ہے"۔
اور آخر میں فرماتے ہیں
"کیا نھوں نے موسٰی علیہ السلام پر کئی طرح کی تہمتیں نہیں لگائیں اور انھیں تکلیف نہیں پہنچائی؟ یہاں تک کہ
خدا نے انہیں تمام اتہامات سے بری قرار دے دیا۔ ؎2