Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند قابل توجہ نکات

										
																									
								

Ayat No : 56-58

: الاحزاب

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۵۶إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ۵۷وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ۵۸

Translation

بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو. یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے. اور جو لوگ صاحبانِ ایمان مرد یا عورتوں کو بغیر کچھ کئے دھرے اذیت دیتے ہیں انہوں نے بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا رکھا ہے.

Tafseer

									  چند قابل توجہ نکات 
 1-        "صلات" کی جمع " صلوات " ہے اور جس وقت اس کلمہ کو خدا کی طرف نسبت دی جائے تورحمت نازل کرنے اور رحمت بھیجنے کے معنی میں ہوگا اور جب اس کی نسبت فرشتوں اور مومنین کی طرف ہو تو پھرطلب رحمت کے معنی میں ہو گا۔ ؎2 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
   ؎1       یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان آیات کی تفسیر کی ابتدا شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ماہ ربیع الاول 1404 ھ میں ہوئی ہے۔ 
   ؎2       راغب نے مفردات میں اس مفہوم کو دوسرے  لفظوں میں پیش کیا ہے ۔ 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 2-        "یصلون" کو فعل مضارع کی صورت میں لانا اس کے استمرار کی دلیل ہے ، یعنی ہمیشہ خدا اور فرشتے اس پر رحمت بھیجتے اور درود بھی بھیجتے ہیں مسلسل اور جاوداني رحمت اور درود ۔ 
 3-        "صلم" اور "سلموا" کے درمیان کیا فرق ہے ؟ مفسرین نے اس پر بہت بحث کی ہے ، لیکن جو کچھ ان دو الفاظ کے لغوی مفہوم اور قرآنی آیت کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ "صلوا" پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرطلب رحمت اور درودر بھیجنے کا حکم ہے۔ 
 رہا "سلموا" تو وہ یا تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکام اور فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے معنی میں ہے جیسا کہ سورہ نساء کی آیت 65 میں آیا ہے:
  " ثم لایجد وافي انفسهم حرجًا مما قضیت ویسلموا تسلیما" 
  "مومن وہ ہیں جو آپ کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کریں ، حتی کہ آپ کے کسی فیصلے میں ذرہ بھر 
  بھی ناراضی کا اظہار نہ کریں ۔بلکہ مطلق طور پرتسلیم کرلیں "۔ 
 نیز ایک روایت میں ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے ابوبصیرنے عرض کیا : پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پر صلوات بھیجنے کو تومیں سمجھ گیا ہوں لیکن اس تسلیم کا کیا معنی ہے؟ 
 تو امام نے فرمایا:
  "هوالتسلیم له فی الامور"۔ 
  "ہرکام میں ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا"۔ ؎1
  یا پھر پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زپر"السلام علیک یارسول الله " اور اس قسم کے کسی طریقے سے سلام بھیجنے کے معنی میں ہے ، جس کا مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ خداوندی سے سلامتی کی درخواست کرنا ہے۔ 
 ابو حمزه ثمالی ، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے کعب نامی ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سلام کرنا تو ہم جانتے ہیں ، لیکن صلوات کس طرح بھیجنی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ، یوں کہا کرو :
  " اللهم صلى علٰی محمد وال محمد كما صليت على ابراهيم انك حميد 
  مجید، وبارك على محمد وال محمد كما باركت علٰى ابراهيم وال ابراهيم 
  انا حميد مجيد"۔ 
 اس حدیث سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود وصلوٰۃ کی کیفیت بھی واضح ہوجاتی ہے اور سلام کا معنی بھی ۔ ؎2 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1      مجمع البیان ، اسی آیت کے ذیل میں اور دوسری حدیث شیعہ اورسنی کتابوں میں متعدد طریقوں سے قریب قریب ایک جیسی عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔ 
  ؎2     مجمع البیان ، انہی آیت کے ذیل میں یہ حدیث شیعہ اوراہل سنت کی کتابوں میں متعدد طریقوں سے تقریبًا ایک جیسی عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے ۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
 اگرچہ سلام کے یہ دونوں معانی مختلف نظر آتے ہیں ۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی نقطے کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ اور وہ بے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور قولی اورعملی تسلیم کیونکہ جو شخص ان پر سلام بھیجتا اور خدا سے ان کی سلامتی طلب کرتا ہے تو درحقیقت وہ ان سے اپنے عشق اورمحبت کا ثبوت دیتا ہے اور انھیں واجب الاطاعت پیغمبر کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ 
 4-       یہ امر قابل توجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  پر صلوات بھیجنے کی کیفیت کے سلسلے میں بے شمار شیعہ اورسنی روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ "محمد" پر صلواۃ بھیجتے وقت "آل محمد" کا اضافہ بھی کرو۔ 
 درمنشور میں "صحیح بخاری" صحیح مسلم ، سنن ابوداؤد ، سنن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، ابن مردویہ اور دوسرے راویوں نے "کعب بن عجرہ" سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: 
  " اما السلام عليک فقد علما فكيف الصلاة عليك؟" 
  "آپ پر سلام کرنا تو تم جانتے ہیں ، لیکن فرمایئے صلات کیسے بھیجی جائے ؟" 
 توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ یوں کہو :
  " اللهم صلى علٰی محمد وال محمد كما صليت على ابراهيم انك حميد 
  مجید، وبارك على محمد وال محمد كما باركت علٰى ابراهيم وال ابراهيم 
  انا حميد مجيد"۔ ۔ 
 سیوطی (تفسیر درمنشور کے موتف) نے اس حدیث کے علاوہ اٹھارہ دوسری احادیث بھی نقل کی ہیں ، جن میں تصریح ہوئی ہے کہ تصلوات میں "آل محمد" کا بھی ذکر کرنا چاہیئے۔ 
 ان احادیث کو اہل سنت کی مشہور ومعروف کتب اور صحابہ کی ایک جماعت سے نقل کیا گیا ہے ، جن میں ابن عباسی ، طلحہ ، ابو سعید خدری ، ابوہریرہ ، ابومسعود وانصاری ،بریدہ ابن مسعود ، کعب نن عجرہ اور امیر المومنین حضرت علیؑ شامل ہیں ۔ ؎1 
 برادران اہل سنت کی مشہور حدیث کی کتاب ، صحیح بخاری میں اس بارے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے قارئین کرام اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں۔ ؎2 
 صحیح مسلم میں بھی اس سلسلے میں دو روایات آئی ہیں . ؎3 
 تعجب کی بات ہے کہ اس کتاب باوجود یکہ ان دو احادیث میں محمد وآل محمد کا کئی بارباہم تذکرہ ہوا ہے ، لیکن باب کا جو عنوان منتخب کیا گیا ہے وہ "باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم" (ذکر آل کے بغیر) ہے۔ ؎ 4
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1        تفسیردرمنشور آیہ مذکورہ کے ذیل میں (تفسیر المیزان جلد 16 ص 365 ، 366 کے مطابق:۔ 
  ؎2        صحیح بخاری جلد 6 ص 151۔ 
  ؎3       صحیح بخاری جلد 1 ص 305 باب الصلاة على النبي ۔ 
  ؎4       پاکستان میں بھی ریڈیو ،ٹی وی، اخبارات ، کتب ، رسائل اور تقاریرمیں خصوصًا مولوی صاحبان جب آنحضرت کا ذکر کرتے ہیں تو "صلی اللہ علیہ وسلم"  ہی لکھتے اور بولتے ہیں۔ "آلہ"
                ادا نہیں کرتے۔ تعجب ہے (مترجم)۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض اہل سنت اور متعدد شیعہ روایات میں "محمد" اور "آل محمد" کے درمیان لفظ "علٰی" کے ساتھ فاصلہ تک بھی نہیں ہے اور صلاۃ تر کی کیفیت اس طرح ہے اور صلاۃ کی کیفیت اس طرح ہے۔ " اللهم صل علٰى محمد وال محمد"۔ 
 اس گفتگو کوہم اسلام کے عظیم الشان پیغمبرکی ایک اور حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں " ابن حجر مکی اپنی کتاب صواعق محرقہ میں نقل کرتے ہیں کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : 
  "لا تصلوا على الصلاة البتراء فقالوا وما الصلاۃ البتراء ، قال تقولون 
  اللهم صل على محمد ، وتمسكون ، بل قولوا اللهم صل على محمد وآل محمد" 
  "مجھ پر کبھی (ناقص اور) دم بریدہ صلوات نہ بھیجا کرو"۔ 
 اصحاب نے عرض کی : حضور! وہ ناقص صلوٰۃ کیاہے؟ 
  فرمایا: اگر فقط "اللھم صل على محمد" کہو اور اس سے آگے نہ بڑھو اور رک جاؤ۔ بلکہ چاہیئے کہ یوں کہاکرو: 
  "اللهم صل على محمد و ال محمد "۔ ؎1
  انہی روایات کی بناء پر اہل سنت کے بزرگ فقہا کی ایک جماعت حضورختمی مرتبت کے نام کے ساتھ "آل محمد" کے اضافہ کو نماز کے تشہد واجب سمجھتی ہے ۔ ؎3 
 5-        آیا رسالت مآب صلی الله علیہ و آلہ وسلم پر صلاة بھیجنا واجب ہے یا نہیں ، اگر واجب بے تو کہاں کہاں واجب ہے؟ یہ وہ سوال ہے ، جس کا جواب فقہا نے دیا ہے۔ 
 تمام فقہا شیعہ اسے نمازمیں پہلے اور دوسرے تشہد میں واجب سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ باقی تمام مقامات پر مستحب جانتے ہیں . علاوہ ان احادیث کے جو اہل بیت کے طریقوں سے اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں ، کتب اہل سنت میں بھی وہ روایات کم نہیں جو وجوب پردلالت کرتی ہیں۔ 
 ان میں سے ایک مشہور روایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ 
  "سمعت رسول اللہ يقول لا يقبل صلاة الابطھور، وبالصلاة على"۔ 
  "میں نے رسول اللہ سے سنا انھوں نے فرمایا کہ نماز طہارات اور مجھ پر درود بھیجے بغیر قبول نہیں ہوگی"۔ 
 فقہاء اہل سنت میں سے امام شافعی دوسرے تشہد میں صلوٰۃ پڑھنا واجب سمجھتے ہیں اور امام احمد اور دوسرے کئی فقہا کے بارے میں دو طرح کی روایات نقل ہوئی ہیں ، البتہ امام ابوحنیفہ جیسے بعض افراد سے واجب نہیں سمجھتے ۔ ؎3 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     صواعق محرقہ ص 144۔
  ؎2    علامہ علی کتاب تذکرہ کی بحث تشہد میں اس قول کو تمام علماء شیعہ کے علاوہ امام ا حمد بن حنبل اور بعض شافعیوں سے بھی نقل کرتے ہیں۔ 
  ؎3    تذکرہ علامہ علی جلد 1 ص 126۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت امام شافعی اس فتوے کو اپنے شعرمیں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں 
  یا اهل بیت رسول الله احبكم   فرض من الله وفی القران انزله 
  كفا كم ، من عظیم  القدر انكم   من لم  يصل  عليكم  لا  صلاة له 
  "اے اہل بیت رسول!  تمھاری محبت خدا کی جانب سے قرآن میں واجب قرار دی گئی ہے"۔ 
  "تمھارے مقام کی عظمت کےلیے یہی کافی ہے کہ جو شخص تم پر درود نہ بھیجے اس کی نماز باطل هے". ؎1 

 بعد والی آیت حقیقت میں گزشتہ آیت کے نقطہ مقابل کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہے ۔ "جو لوگ خدا اور اس کے رسول ایذا اور تیار کیےہوئے ہے"  خدا انھیں دنیا اورآخرت میں رحمت سے دورکردیتاہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب تیار کیے ہوئے ہے"۔ ان الذین یؤ ذون الله ورسوله لعنهم الله في الدنيا والآخرة و اعدلهم عذابًا مهینًا)۔ 
 پروردگار کو ایذا پہچنانے سے کیا مراد ہے؟ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ مراد کفروالحاد ہے ، جو خدا کو عضبناک کرتا ہے کیونکہ خدا کے بارے میں آزار اوراذیت کا استعمال درحقیقت خدا کے غضب کے علاوہ کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہے۔ 
 یہ احتمال بھی ہے کہ خدا کو ایذاء دینے سے مراد رسول خدا اور مومنین کو ایذاء پہنچانا ہو اور یہاں پر خدا کا ذکراس مطلب کو اجاگر کرنے کے لیے ہے ۔ لیکن پیغمبر اسلام کی ایذاء کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں ہر وہ کام شامل ہے جو آپ کو ایذاء پنچائے خواہ وہ کفروالحاد ہو یا احکام الٰہی کی مخالفت ، نیز آپ کی طرف ناروانسبتیں اور تہمتیں یا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انھیں اپنے گھر دعوت دیں تو اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے زحمت اور مشقت پیدا کرنا ۔ جیسا کہ اسی سورہ کی آیہ 53 میں ابھی گزرچکا ہے۔ 
 یعنی "أن ذلكم كان يؤذي النبی ....." تمھارا یہ کام پیغمبر کو تکلیف دیتا ہے۔ 
 یا وہ امر جو سورۃ توبہ کی آیت 61 میں آچکا ہے کہ پیغمبراکرم کو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مشفقانہ گفتگو کی وجہ سے دشمن آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ساده لوحی 
اور خوش فہمی کا الزام دیتے تھے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: 
  " ومنهم الذين يوذون النبي ويقولون هواذن"۔ 
  " ان میں سے کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو نبی کو تکلیف پہچاتے اور کہتے کہ وہ خوش فہم انسان ہیں جو ہرایک 
  کی بات پر کان دھرلیتاہے"۔ 
 اور اسی قسم کی دوسری باتیں۔ 
 یہاں کی اس آیت کے ذیل میں وارد ہونے والی روایات سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ خاندان رسالت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خصوصًا حضرت 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     كتاب الغدیر " میں ان (اشعار کی نسبت امام شافعی کی طرف " شرح المواهب زرقانی" جلد 7 ص 7 میں ایک اور ہے۔ جماعت سے بھی نقل کی گئی ہے۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
علیؑ اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دختر نیک اختر حضرت فاطمه الزهرا علیها السلام کو تکلیف دینا بھی اسی آیت میں شامل ہے چنانچہ صحیح بخاری جزء پنجم میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا۔ 
  " فاطمۃ بضعة منی فمن اغضبها أغضبي"۔ 
  فاطمہ میرا جگر کا ٹکڑا ہے ، جو شخص اسے غضب ناک کرے گا وہ مجھے غضب ناک کرے گا ۔ ؎1 
 یہی حدیث صحیح مسلم میں اس طرح آئی ہے :
  " أن فاطمة بضعۃ منی یوذینی ما اذاها "۔ 
  فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو چیز اسے تکلیف دیتی ہے ، وہ مجھے تکلیف میں دیتی ہے"۔ ؎2 
 آنحضرت کا اس سے ملتا جلتا فرمان حضرت علی علیہ اسلام کے بارے میں بھی ہے: ؎3  باقی رہا زیر بحث آیت میں لفظ تو جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں ، اس کا معنی ہے " رحمت خدا سے دوری" یہ بالکل رحمت اورصلوٰۃ کے مد مقابل ہے ، جس کا بیان اس سے پہلی آیت میں ہوچکا ہے۔ 
 "لعن" اور رحمت الٰہی سے دھتکارا جانا اور وہ بھی خود خدا کی طرف سے کہ جس کی رحمت بے پایاں اور وسیع ہے ، درحقیقت عذاب کی بدترین قسم ہے ، خصوصًا جب کہ رحمت سے یہ دوری دنیا اور آخرت دونوں میں ہوا۔ (جیسا کہ اسی آیت میں ہے) اور شاید اسی بناء پر "لعن" کا ذکر" عذاب مہین" پہلے ہواہے"أعد" (تیار کرچکا ہے) کی تعبیر اس عذاب کی تاکید اور اہمیت کی دلیل ہے۔ 


 اس سلسلے کی آخری آیت مومنین کی ایزاء کے بارے میں گفتگو کرتی ہے اور خدا اور پیغمبر کے بعد اس امر کی حد سے زیادہ اہمیت بتاتی ہے ، خدا تعالٰی فرماتا ہے :"جو لوگ صاحب ایمان مردوں اور عورتوں کو اس کام کی وجہ سے جو انہوں نے انجام نہیں دیا آزار پہنچاتے ہیں وہ بہتان اور آشکارا گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ":(والذین یؤذون المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملوا بهتانا واثهامبینًا )۔ 
 کیونکہ مومن، ایمان کی وجہ سے خدا اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ، اسی وجہ سے یہاں پر خدا اور رسول کے بعد اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ 
 "بخير مالكتسبوا" کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے جب آزار و اذیت کا سبب ہو۔ یہیں سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس وقت ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتاہے جوحد ، قصاس یا تعزیر 
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1        صحیح بخاری جزء 5 ص 200۔ 
  ؎2       صحیح مسلم جلد 4 ص 1903 (باب الفضائل فاطمہؑ)
  ؎3       مجمع البیان ، اسی آیت کے ذیل میں ۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کا موجب ہو تو پھر ان پر حدود و قصاص وغیرہ کے اجراء میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اسی طرح امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہ چیزیں شامل نہیں ہیں۔ 
 "بهتان" کو "اثم مبین" پر مقدم کرنا اس کی اہمیت کی وجہ سے ہے ، کیونکہ بہتان کا شمار عظیم ترین اذیتوں میں ہوتا ہےاوراس کا زخم نیزے اورخنجر کے زخم سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے ، یا کسی عرب شاعر نے کہا ہے: 
  جراحات السنان لها القيام  ولایلتام  ماجرح ، اللسان 
  "نیزے کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں ، لیکن زبان کے زخم نہیں مل سکے"۔ 
 اسلامی روایات میں اس بات کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ایک حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہم پڑھتے ہیں۔ 
 خدا وند عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
  "لياذن بحرب مني من اذا عبدی المؤمن "۔ 
  "جو شخص میرے مومن بندے کو تکلیف پہنچاتا ہے ، وہ میرے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے ۔ ؎1 
 بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے لب ولہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں کچھ لوگ رہتے تھے جب مومنین کے خلاف غلط افواہیں پھیلاتے اور ان کی طرف ناروا باتیں منسوب کرتے تھے (حتی کہ خود پیغمبراسلامؐ بھی ان موزیوں کی زبان سے محفوظ نہیں رہ سکے تھے) ۔ وہی لوگ جو دوسرے معاشروں خصوصًا موجودہ دور میں کم نہیں ہیں ، ان کا کام نیک اور مقدس لوگوں کے خلاف سازشیں تیار کرنا ، جھوٹ بولنا اور بہتان تراشی کرنا ہوتابے ۔
 قرآن مجید انھیں اپنے سخت ترین حملوں کا نشانہ بناتا ہے اوران کے اعمال کو بہتان اور واضح گناہ قرار دیتا ہے۔ بعد والی آیات میں بھی اس سلسلے میں بات ہوگی۔ 
 ایک اور حدیث میں جسے امام رضاعلیہ اسلام اپنے جد امجد حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیان کرتے ہیں ، اس طرح آیا ہے: 
  "من بهت مؤمنا اومؤمنة اوقال فيه ماليس فیه اقامه الله تعالٰى يوم 
  القيامة على تل من نارحتیٰ يخرج مما قاله فبه"۔ 
  " جو شخص مومن مرد یا مومن عورت پر بہتان باندھے ، یا اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کرے جو اس میں نہیں ہے۔
  توخدا اسے قیامت میں آگ کے ٹیلے پر قرار دے گا اور وہ اس وقت تک وہیں رہے گا، جب تک اپنے کیے کی سزانہ پالے"۔ ؎2 
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     اصول کافی جلد 2 ، ص 35۔
  ؎2     بحارالانوار جلد 75 ص 194۔