قانون حجاب سے مستثنٰی موارد
لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ۗ وَاتَّقِينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا ۵۵
اور عورتوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اگر اپنے باپ دادا, اپنی اولاد, اپنے بھائی, اپنے بھتیجے اور اپنے بھانجوں کے سامنے بے حجاب آئیں یا اپنی عورتوں اور اپنی کنیزوں کے سامنے آئیں لیکن تم سب اللہ سے ڈرتی رہو کہ اللہ ہر شے پر حاضر و ناظر ہے.
تفسیر
قانون حجاب سے مستثنٰی موارد:
چونکہ گزشتہ آیت میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے حجاب کے بارے میں ایک مطلق حکم آیاتھا جس سے یہ گمان پیدا ہوتا تھا کہ ان کے محرم بھی اس حکم پرعمل کرنے کے پابند ہیں اور انھیں بھی ازواج رسولؐ سے پردے میں رہ کر ملاقات کرنا چاہیے تو اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس حکم کی تشریع کر دی گئی۔
خدا فرماتا ہے۔ "پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپ، اولاد ، بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، مسلمان عورتوں اور اپنے غلاموں کے ساتھ بغیر حجاب سے ملاقات کریں"۔والا جناح عليهن فی ابا بهن ولا ابنا بهن ولا أخوانهن ولا ابناء اخوانهن ولا ابناء اخوتهن ولا نسائهن ولا ما ملكت ايمانهن)۔
دوسرے لفظوں میں ان کے محرم جو ان چھ گروہوں پر منحصر ہیں، وہ مستثنٰی ہیں ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ کچھ اور افراد بھی تو محرم ہیں جن کا ان چھ گروہوں میں نام نہیں آیا مثلًا چچے اور ماموں وغیرہ ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قران مجید چونکہ اپنی فصاحت و بلاغت کو علٰی صورت میں محفوظ رکھتا ہے اور اصول فصاحت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی اضافی لفظ گفتگو میں نہ آنے پائے ، لہذا یہاں پر چچاؤں اور ماموؤں کے ذکر سے اجتناب کیا ہے۔ کیونکہ بھتیجوں اور بھانجوں کے ذکر سے چچاؤں اور ماموؤں کا محرم ہونا واضح ہو جاتا ہے ۔ اس لیے کہ محرمیت ہمیشہ دونوں طرف سے ہوتی ہے ، جس طرح کسی کا بھتیجا اس کا محرم ہوتا ہے ، اسی طرح وہ بھی بھیتجے کے ساتھ محرم ہوگی (اور معلوم ہے کہ ایسی عورت انسان کی پھوپھی شمار ہوگی) ۔ نیز جس طرح بھانجا کسی کا محرم ہوتا ہے ، اسی طرح وہ بھی بھانجے کی محرم ہوگی (اور معلوم ہے کہ ایسی عورت اس کی خالہ شمار ہوگی) ۔
جس طرح پھوپھی اورخالہ بھتیجے اور بھانجے کی محرم ہوگی تو چچا اور ماموں بھی تو بھتیجی اور بھانجی کے محرم ہوں گے۔ (کیونکہ چچا اور پھوپھی ، نیز ماموں اور خالہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے) اور یہ اس قرآن کے گہرے نکات میں سے ہے۔
(غور کیجیئے گا)۔
یہان پر ایک اور سوال پیش آتا ہے کہ شوہر کا باپ اور شوہر کا بیٹا بھی تو عورت کے محرم شمار ہوتے ہیں تو پھر یہاں پر ان کا ذکر کیوں نہیں آیا، جبکہ سورۂ نور کی آیت 31 میں ان کو محرم کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیتیں گفتگوصرف آنحضرت کی بیویوں کے بارے میں بے اور معلوم ہے ـــــــــــ کہ ان آیات کے نزول کے وقت نہ تو آپ کے والد گرامی زندہ تھے نہ ہی اجداد اور نہ ہی آپ کا کوئی بٹیا تھا۔ (پھرکیجیئے گا) ، ؎1
رضائی بھائی بہنوں اوراس قسم کے دیگر افراد کا ذکر نہ کرنا بھی اسی بناء پر ہے کہ دہ بھائی بہنوں اور دوسرے محروں کے ضمن میں شمار ہوتے ہیں ، لہذا ان کا علٰیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
آیت کے آخرمیں گفتگو کے لب و لہجہ کو "غائب" سے "خطاب" کی طرف تبدیل کرکے ازواج رسول کو مخاطب کرتے
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مورخین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹوں کا ذکر کیا ہے ،قاسم اور عبداللہ (جن کا لقب طیب اور طاہر تھا ، یہ دونوں حضرت خدیجہ کے بطن مبارک سے تھے اور مکہ میں بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے اور تیسرے حضرت ابراہیم تو آٹھویں ہجری کو پیدا ہوئے اور 16 یا 18 سے زیادہ زندہ نہیں رہے ، بہرحال ان میں سے کوئی بھی سوره احزاب کے نزول کے وقت کو موجود نہیں تھا۔ ابراہیم اس واقعے کے بعد اور بچپن ہی میں دنیا سے آنکھیں بند کر گئے۔( اسداللہ الغابہ اور تاریخ و رجال کی دوسری کتب کی طرف رجوع فرمنائیں)۔
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہوئے قرآن کہتا ہے ۔ "تقوی اختیار کرو ، کیونکہ خدا ہر چیز سے آگاہ ہے"۔ اورکوئی چیزاس سے مخفی نہیں ہے"۔ ( واتقشین الله، إن الله كان على كل شي شهيدًا)۔
کیونکہ حجاب اور اس قسم کے امور گناہ سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہیں اوربس۔ مقصود تو درحقیقت وہی تقوٰی ہے ۔ اگر وه نہ ہو تو یہ ذرائع بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔
یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ "نسائھن" (ان کی عورتیں) ہم مذہب اور مسلمان عورتوں کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ جس طرح سورہ نور کی تفسیرمیں بتاچکے ہیں کہ مسلمان عورتوں کے لیے اچھا نہیں ہے کہ وہ غیرمسلم عورتوں کے سامنے بغیرپردہ کے آئیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ چیزیں اپنے شوہروں سے جاکر بیان کریں ۔ ؎1
باقی رہا "ما ملكت ایما نهن" کا جملہ تو جیسا سورہ نور کی تفسیرمیں ہم کہہ چکے ہیں کہ اس کا ایک وسیع مفهوم ہے جس میں کنیزیں بھی شامل ہیں اور غلام بھی، لیکن بعض روایات کے مطابق یہ حکم کنیزوں کے ساتھ مختص ہے۔ اسی بناء پر ممکن ہے کہ ان کا ذکر عورتوں کے کلی ذکر کے بعد اس لحاظ سے ہوکہ غیر مسلم کنیزیں بھی اس حکم میں شامل ہوں ۔ (غور کیجیئےگا)۔