Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تفسیر

										
																									
								

Ayat No : 53-54

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴

Translation

اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.

Tafseer

									  تفسیر
 اس آیت میں ایک بار پھر روئے سخن مومنین کی طرف ہے اور کچھ مزید احکام خصوصًا جو پیغمبر اکرمؐ اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاشرت کے اداب سے متعلق ہیں ۔ مختصر ، واضح اور صریح جملوں میں بیان کرتے ہوئے فریاما گیا ہے: اے وہ لوگو! جوایمان لائے ہو ۔ پیغمبرؐ کے گھروں میں بغیر اجازت کے ہرگز داخل نہ ہونا مگر جب تمھیں کھانا کھانے کے لیے اجازت دے دی جائے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ صحیح وقت پر آؤ نہ یہ کہ پہلے سے آجاؤ اور کھانے کے وقت کے انتظار میں بیٹھے رہو ": (ایها الذین آمنوا لاتدخلوا بيوت النبی الاان یؤذن لكم الى طعام غير ناظرين اناه )۔ ؎1 
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1   "اناہ" "الٰی یانی" کے مادہ سے کسی چیز کاموقع آجانے کے معنی میں ہے ، لیکن یہاں پر کھانے کی تیاری کے معنی میں ہے۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
 قرآن اس طرح سے معاشرت کے ایک اہم ادب کو بیان کرتا ہے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں پر اس کا بہت کم لحاظ رکھا جاتا تھا ، اگر گفتگو پیغمبراکرم کے گھر کے بارے 
میں ہے ۔ لیکن مسلم ہے کہ یہ حکم آپؐ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ کسی بھی موقع پر کسی گھر میں بھی بغیر اجازت کے داخل نہیں ہونا چاہیئے (جیسا کہ سورہ نور کی آیت 27 میں بھی آیا ہے) حتی کہ خود پیغمبراکرمؐ کے حالات میں لکھاہے کہ آپ ہر وقت اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے گھر میں جاتے تو باہر کھڑے ہوکرجازت لیتے. بلکہ ایک دن جابر بن عبداللہ انصاری آپؐ کے ساتھ تھے ، جہاں آپؐ نے اپنےلئے اجازت مانگی وہاں جابر کے لیے بھی اجازت طلب کی اور پھراندر گئے ۔ ؎1 
 علاوہ ازیں جس وقت مدعوئین کو کھانے کی دعوت ہو توانہیں وقت شناس ہونا چاہیئے اور بے موقع ومحل صاحب خانہ کے لیے اسباب زحمت فراہم نہیں کرنے جاہئیں۔ 
 اس کے بعد دوسرے حکم کو پیش کرتے ہوئے قرآن کہتاہے۔ "لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو اندر جاؤ اور جب کھانے سے فارغ ہوجا تو نکل جاؤ": (ولكن اذا دعيتم فادخلوافاذا طعمم فانتشروا)۔
 یہ حکم درحقیقت گزشتہ حکم کی تاکید اور تکمیل ہے ۔ یعنی نہ تو اس گھر میں بے وقت داخل ہونا چاہیئے ، جہاں دعوت دی گئی ہے اور نہ ہی دعوت قبول کرنے میں بے پرواہی سے کام لینا چاہیئے اور نہ ہی کھانا کھالینے کے بعد بہت دیرتک وہاں بیٹھے رہنا چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ ان امور کی خلاف ورزی میزبانی کے لیے موجب زحمت ہے اور اخلاقی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ 
 تیسرے حکم میں فرمایا گیا ہے۔" کھانا کھالینے کے بعد دل لگی اور گفتگو کی مجلس پیغمبرؐ کے گھرمیں (اور کسی بھی دوسرے میزبان کے گھرمیں) نہ جماؤ : ( ولامستأنین لحدیث)۔
  البتہ ممکن ہے کہ خود میزبان اس قسم کی مجلس خلوص ومحبت کا خواہاں ہو تو ایسی صورت اس حکم سے مستثنٰی ہے گفتگو وہاں کی ہے جہاں صرف کھانا کھانے کی دعوت دی گئی ہے کہ غپ شپ کی ۔ تو اس قسم کے مقام پر کھانا کھالینے کے بعد مجلسوں کو ترک کردینا چاہیئے ، خصوصًا جبکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر جیسا گھر ہو۔ جو عظیم ترین خدائی فرائض کے انجام پانے کا مرکزہے ۔ ضروری ہے کہ ایسے مقام اسباب زحمت فراہم نہ کیے جائیں ، جن سے وقت ضائع بو ، اس کے بعد حکم کی حلت کو یوں بیان کیا گیاہے۔"یہ کام پیغمبرخدا کو اذیت و آزار بن پہنچاتا ہے ، مگر وہ تم سے شرم کرتے ہیں ۔ لیکن خدا حق بیان کرنے میں رو رعایت سے کام نہیں لیتا": (ان ذالكم كان یؤذی النبی قيستحي منكم والله لايستحی من الحق)۔ 
 البتہ رسول اللہ بھی ایسے مواقع پر بیان کرنے میں رو رعایت نہیں کرتے جو ذاتی نہیں ہوتے ، کیونکہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ انسان اپنے بارے میں آپ بات کرے ۔البتہ دوسروں کے بارے میں ہو تو بات کرنا بھی مناسب ہوتا ہے۔ 
 یہ آیت بھی ایسے ہی موقع کی مناسبت سے ہے۔ اخلاقی اصولوں کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا دفاع خود نہ کریں بلکہ خدا ان کا دفاع کرے ۔
۔۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1     کافی جلد 5 ص 520۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 پھرچوتھا حکم پردے کے سلسلے میں ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے: "جس وقت ازواج رسول سے ضروریات زندگی کی کوئی چیزطلب کرنا چاہو تو پردہ کی اوٹ میں طلب کرو": (واذا سألتموهن متاعًا فاسئلوهن من وراء حجاب)۔ 
 جیساکہ پہلے بتایا جاچکاہے کہ عربوں اور بہت سے دوسرے لوگوں میں سے معمول تھا کہ بوقت ضرورت ضروریات زندگی کی کئی چیزیں وقتی طور پر ہمسایوں سے عاریتًا لی جاتی تھیں اور پیغمبراکرم کا گھربھی اس طریقہ کارسے مستثنٰی نہیں تھا۔ بھی کبھار لوگ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں سے بھی چیزیں عاریتًا کے لیتے واضح رہے کہ ازواج رسولؐ کی لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آنا (اگرچہ اسلامی حجاب کے ساتھ سہی )کوئی اچھی بات نہیں تھی ،لہذا حکم ہوگیا کہ آیندہ کے لیے یاتو پردہ کے پیچھے سے آکر چیزلیاکریں - با پھر دروازے کے پیچھے سے. 
 یہاں پر جو نکته قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت تین "حجاب" سے مراد عورتوں کا عام پردہ نہیں ، بلکہ اس پر ایک اضافی حکم ہے جو ازواج رسول کے ساتھ محصوص ہے اور وہ یہ کہ لوگ اس بات کے پابند تھے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہٖ وسلم اور کی خصوصی حرمت کے پیش نظر جب کبھی آپ کی بیویوں سے کوئی چیز لینا چاہیں تو پردے کے پیچھے سے لیا کریں اور ازواج رسولؐ پردے کے ساتھ بھی لوگوں کے سامنے نہ آیا کریں۔ 
 البتہ یہ حکم ازواج رسولؐ سے مختص ہے اور عام عورتیں اس سے مستثنٰی ہیں ۔ یعںی وہ اسلامی حجاب کے ساتھ عام لوگوں کے سامنے آسکتی ہیں۔ 
 اس بات کا شاہد یہ ہے کہ لفظ "حجاب" روز مرہ کے استعمال میں عورت کے پردے کے معنی میں آتا ہے ، لیکن لغت میں اس کا یہ مفہوم نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے فقہاء نے اسے اس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ 
 "حجاب" لغت میں کسی چیز کے معنی میں ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہوتی ہے ۔ ؎1 
 اسی بناء پر جو پرده انتڑیوں، دل اور پھیپھڑے کے درمیان موجود ہے اسے "حجاب حاجز" کا نام دیا گیا ہے۔ 
 قران مجید میں بھی یہ لفظ ہرجگہ پردہ یا رکاوٹ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، مثلًا سورہ بنی اسرائیل کی آیت 45  میں ہے : 
  " جعلنا بينك وبين الذين لایومنون با لاخرة حجابًا مستورًا"۔ 
  "ہم نے تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جوآخرت پرایمان نہیں لاتے پوشیدہ پردہ قرار دیا ہے"۔
 سورہ ص کی آیه 32 میں ہے: 
  "حتى توارت بالحجاب" 
  "یہاں تک کہ سورج افق کے پردے کے پیچھے پنہال ہوا۔" 
 نیر سورہ شورٰی کی آیت میں آیا ہے: 
  "وما كان لبشران يكلمه اللہ الا وحيًا اومن ورئی حجاب"۔ 
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1    لسان العرب مادہ "حجب"۔ 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------  
 "کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے ۔ مگر وحی کے ذریعے یا پس پردہ (غیب) سے"۔ 
 فقہاء کے کلمات میں قدیم الایام سے اب تک عورتوں کے پردے کے بارے میں عام طور پر "ستر" کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اسلامی روایات میں بھی یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیرآئی ہے اور عورتوں کے پردے کے بارے میں لفظ "حجاب" کا استعمال ایسی اصطلاح ہے جو زیادہ تر ہمارے زمانے میں رائج ہوئی ہے اور اگر کسی تاریخ میں یا روایت میں بھی مل جائے تو بہت کم ایسا ہوگا۔ 
 دوسرا شاہد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خصوصی خادم انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں اس آیت حجاب کے بارے میں سب سے زیادہ آگاہیوں۔ کیونکہ جب جناب زینب کی پیغمبراکرم سے شادی ہوگئی اور وہ آپ کے گھر میں آگئیں تو آپ نے دعوت ولیمہ کا بندوبست کیا ، لوگوں نے کھانا کھالیا ، لیکن کچھ لوگ کھانا کھانے کے بعد اسی طرح بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: یاایها الذين امنوالا تدخلوابیوت النبی۔ تا۔ من ورائی حجاب"۔ 
 تو اس وقت پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ اٹھ کھڑے ہوۓ۔ ؎1 
 ایک اور روایت میں انس کہتے ہیں:  
  "ارخی الستربين وبينه" 
  "پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور لوگوں نے جب یہ دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوۓ اور منتشر ہوگئے"۔ ؎2
 اسی بناء پر اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردہ نشینی کا حکم نہیں دیا اور عورتوں کے بارے میں "پردہ نشین" یا اس قسم کی دوسری تعبیریں اسلامی حیثیت نہیں رکھتیں ، جو کچھ کسی مسلمان عورت کے لیے ضروری ہے ، وہی اسلامی پردہ ہے ، لیکن ازواج رسول کا معاملہ کچھ اور ہے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بہت زیادہ تھے اور مفاد پرست ٹولہ اسی ٹوہ میں لگا رہتا تھا کہ کوئی موقع ہاتھ لگے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی تہمت کا نشانہ بنائیں ، تاکہ اس طرح سے سیاہ دل لوگوں کے ہاتھ میں دستاویز آجاۓ ۔ لہذا انھیں یہ خاص حکم دیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں امت کو یہ حکم دیاگیاہے کہ ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی چیز طلب کرتے وقت ان سے پردے کی اوٹ میں بات کیا کریں۔ خصوصًا "وراء" کی تعبیر اس معنی کی گواہ ہے۔ 
 اسی لیے قران مجید اس حکم کے بعد اس کے فلسفے کو یوں بیان کرتا ہے ۔ "یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے بہترہے": (ذالكم اطهر لقلوبكم وقلوبھن)۔ 
 اگر تعلیل کی یہ قسم استحبابی کے منافی نہیں لیکن "فاسئلوهن" میں امر کے وجوب میں ظہور کو بھی متزلزل نہیں کرتی کیونکہ اس قسم کی تعلیل بعض اوقات دوسرے واجب احکام میں بھی آئی ہے۔ 
 پانچویں حکم کو اس صورت میں بیان کیاگیا ہے۔ تم حق نہیں رکھتے کہ رسول خدا کو تکلیف پہنچا"۔ (وما كان لكم 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
  ؎1      صحیح بخاری جلد 6 ص 149 ۔
  ؎1      صحیح بخاری جلد 6 ص 149 ۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 ان تؤذوا رسول الله - 
 اگرچہ اذیت ناک اور تکلیف دہ عمل خود اسی آیت میں بیان ہوگیا ہے اور وہ ہے بے موقع ومحل پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر جانا ، کھانا کھا لینے کے بعد بیٹھ جانا اور ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا ، اور شان نزول والی روایات میں بھی آیا ہے کہ بعض دل کے اندھوں نے  قسم کھائی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں سے عقد کریں گے ، یہ ایک اور تکلیف دہ بات تھی ۔ لیکن آیت کا مفہوم ہر حالت میں عام ہے اور ہر قسم کی تکلیف اور اذیت پہنچانے سے منع کرتا ہے۔  
 آخرمیں چھٹا اور آخری حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کی ازواج کے ساتھ شادی کی حرمت کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے:۔ تم ہرگز یہ حق نہیں رکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویوں کو اپنے حلقہ ازدواج میں لاؤ ، کیوں کہ یہ کام خدا کے نزدیک بہت بڑی جسارت والا ہے"۔ (ولا ان تنكحوا ازواجه من بعده ابدًا ان ذالكم كان عندالله عظيمًا). 
 یہاں پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خدا نے کس طرح پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد شادی کے حق سے محروم کردیا۔ جبکہ  بوقت وفات آپ کی کچھ بیویاں جوان بھی تھیں ؟ 
 اس سوال کا جواب حرمت کے فلسفے کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے۔ کیونکہ: 
 
 اولا:-    جیساکہ آیت کی شان نزول سے معلوم ہوچکا ہے کہ بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے انتقام لینے اور آپ کی ذات اقدس ان کی توہین کرنے کےلیے اس قسم کا ارادہ کرچکے تھے۔ اس طرح سے وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت کی عزت اور عظمت پر ضرب لگائیں۔ 
 ثانیًا:-    اگر یہ مسئلہ جائز ہوتا تو کچھ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیوہ کو اپنے حلقہ زوجیت میں لے آنے کے بعد ممکن تھا کہ اس اقدام سے ناجائز مفاد حاصل کرتے اور اسے وہ معاشرے میں اپنی جھوٹی شہرت حاصل کرنے کاایک  ذریعہ قرار دیتے یا اس عنوان سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھریلو حالات سے باخبر ہیں اور ان کی تعلیمات اور مکتب کی خصوصی معلومات انھیں حاصل ہیں. لہذا اسلام میں تحریف کا ارتکاب کرتے۔ یا منافق لوگ ، معاشرے میں ایسی باتیں پھیلانا شروع کردیتے ہو آنحضور کے شایان شان نہ تھیں ۔( غورکیجیئےگا)۔ 
 اس متوقع خطرے کو اس وقت تقویت ملتی ہے ، جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے بالکل تیار کرلیا تھا۔ حتی کہ بعض لوگوں نے اس کا زبانی طور پر اظہاربھی کردیا تھا اور کچھ لوگوں نے شاید ابھی دل میں رکھا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں جن اشخاص کا بعض اہل سنت مفسرین نے یہاں پر نام لیاہے ان میں سے ایک طلحہ بھی تھا۔ ؎1 
 وہ خداجو نہاں اور آشکارا اسرار سے آگاہ ہے ، اس نے اسے قبیح سازش کو ظاہر کرنے کےلیے ایک فیصلہ کن حکم صادر فرما دیا ، جس سے ان تمام امور کا مکمل طور پر سدباب ہوگیا۔ اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو 
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1    تفسیر قرطبی جلد 8 ص 5310۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"ام المومنین" کا لقب دے دیا تاکہ لوگ جان لیں کہ ان سے عقد کرنا اپنی ماں سے ازدواج کرنے کے مترادف ہے۔ 
 مذکورہ وجوہات کی بناء پر واضح ہوجاتا ہے کہ ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پرکیوں واجب قرار دے دیا گیا تھا کہ وہ اس محرومیت کو خوشی خوشی گلے لگائیں ؟
 انسان کی زندگی میں بعض اوقات ایسے اہم مسائل پیش آجاتے ہیں ، جن کی خاطر اس سے فدا کاری اور قربانی کی مثالیں قائم کرنا پڑتی ہیں اور اپنے بعض مسلم حقوق سے بھی دست بردار ہونا پڑتا ہے ، خاص طور جب عظیم اعزازات کے ساتھ عظیم اور سنگین ذمہ داریاں بھی ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب آپ سے عقد کر لیا تو انھیں ایک نہایت ہی عظیم اعزاز مل گیا ۔ جب اس قدر عظیم اعزاز انہیں نصیب ہوگیا تو انہیں اسی قدر ایثار و قربانی کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیئے تھا۔ 
 اسی بناء پر ازواج رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اسلامی امہ کے درمیان نہایت ہی قابل احترام زندگی بسر کرتی رہیں اور اپنی اس  کیفیت سے بہت ہی خوش تھیں اور نئے ازدواج سے محرومی کو اس اعزاز کے مقابلے میں حقیر اور ناچیز  سمجھتی تھیں۔ 
 خداوند عالم دوسری آیت میں لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوۓ کہتا ہے ۔"اگر کسی چیز کو تم آشکار اور ظاہر کرو یا مخفی رکھو ، خدا بہرحال ان تمام امور سے آگاہ ہے": (ان تبد واشيئًا او تخفوه فان الله كان بكل شيءٍ عليمًا)۔ 
 یہ گمان نہ کرو کہ خدا اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں اذیت ناک اور تکلیف دہ منصوبوں سے باخبر نہیں ، وہ تو ان سے بھی باخبر ہے جنہوں نے دل کا حال زبان پر جاری کیا ہے اور ان سے بھی جو دل میں رکھتے تھے ، غرض کہ سب کو اچھی طرح سے جانتا ہے اور وہ شخص سے اس کے کام اور نیت کے مطابق سلوک کرے گا۔