شان نزول
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا ۵۳إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۵۴
اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہوجاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے. تم کسی شے کا اظہار کرو یا اس کی پردہ داری کرواللہ بہرحال ہر شے کا جاننے والا ہے.
شان نزول
اس آیت کی شان نزول کے بارے میں مفسرین نے یوں نقل کیا ہے:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زینب بنت حجش سے ازدوا ج کے موقع پردعوت ولیمہ کا اچھا خاصا بندوبست کیا۔ (ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ اہتمام اس بناء پر تھا ۔ تاکہ زمانہ جاہلیت کی ااس غلط رسم کو توڑا جائے جو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح کی حرمت کے سلسلے میں تھی اور اس رسم کو دوٹوک اور فیصلہ کن انداز میں ختم کردیا جائے تاکہ معاشرے میں یہ مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے ۔ نیز زمانہ جایلیت کی اس غلط رسم کو بھی ختم کردیا جائے کہ آزاد کردہ غلاموں کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح معیوب ہے)۔
آنحضرت صلی اللہ علیه وآلہٖ وسلم کے خاص خادم انس کہتے ہیں کہ آپؐ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپؐ کے اصحاب کو کھانے کی دعوت دوں چنانچہ میں نے سب کو دعوت دی اور وہ ٹولیوں کی صورت میں آکر کھانا کھاتے اور حجرے سے باہر نکل جاتے ۔ یہاں تک کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اب کوئی شخص باقی نہیں رہ گیا ہے کہ جسے میں نے دعوت دی ہو اور وہ نہ آیا ہو تو آپؐ نے فرمایا بس ٹھیک ہے، اب دسترخوان بڑھاؤ ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا تو سب لوگ اٹھ کر چلے گئے ۔ لیکن تین افراد اسی طرح آپؐ کے حجرے میں بیٹھے رہے اور بحث و مباحت اور گفتگو میں مصروف ہو گئے ۔ جب ان کی گفتگو لمبی ہوگی تو آنحضرت صلی الله علیہ والہٖ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپؐ کے ہمراہ کھڑا ہوگیا تاکہ وہ لوگ متوجہ ہوجائیں اور اٹھ کر چلے جائیں ، پیغمبراکرم باہر آ گئے حتی کہ جناب عائشہ کے حجرے تک پہنچ گئے اور پھرلوٹ گئے میں بھی آپؐ کی خدمت میں آیا اور دیکھا کہ وہ لوگ اسی طرح بیٹھے ہوئے ہیں تو زیر نظر آیت نازل ہوئی اور اس قسم کے مسائل کے سلسلے میں ضروری احکام کی تعلیم دی ۔ ؎1
نیز بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ہمسائے اور کبھی دوسرے لوگ معمول کے مطابق چیزيں عاریتًا لینے کے لیے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بعض بیویوں کے پاس آتے۔ اگرچہ وہ اس زمانے کی سادہ زندگی کے مطابق کسی غلط کام کے مرتکب نہیں ہوتے تھے ، لیکن ازواج رسول کی قدرومنزلت کے پیش نظر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی ۔ اور مومنین کو حکم دیا گیا کہ جب رسول اللہ کے ہاں ان کی کسی بیوی سے کوئی چیز لینا چاہیں تو پردے کی اوٹ سےلیں۔
ایک اور روایت میں ہے:
رسول اللہ کے بعض مخالفین نے کہا:
"پیغمبر کیونکر ہماری بعض بیوہ عورتوں کو اپنے نکاح میں لے آئے ہیں ۔ بخدا جب اس دنیا سے ان کی آنکھیں بند ہوں گی تو ہم ان کی بیویوں سے شادی کریں گے۔
اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی اور آپؐ کے بعد آپؐ کی بیویوں سے شادی کی کلی طور پرممانعت کردی گئی اور اس سازش کو بھی ناکام بنادیا گیا۔ ؎2
۔------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 مجمع البیان جلد 8 ص 366 آیہ مذکورہ کے ذیل میں۔
؎2 مجمع البیان جلد 8 ص 366 - 368۔