Tafseer e Namoona

Topic

											

									  رسول اللہ چراغ فروزاں ہیں 

										
																									
								

Ayat No : 45-48

: الاحزاب

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۴۵وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ۴۶وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا ۴۷وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ۴۸

Translation

اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا. اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے. اور مومنین کو بشارت دے دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل و کرم ہے. اور خبردار کفّار اور منافقین کی اطاعت نہ کیجئے گا اور ان کی اذیت کا خیال ہی چھوڑ دیجئے اوراللہ پر اعتماد کیجئے کہ وہ نگرانی کرنے کے لئے بہت کافی ہے.

Tafseer

									  تفسیر
              رسول اللہ چراغ فروزاں ہیں : 
 ان آیات میں روئے سخن پیغمبراسلامؐ کی طرف ہے لیکن اس کے نتیجہ مومنین کے لیے ہے اور آیات اُن گذشتہ آیات کی تکمیل کرتی ہیں جن میں مومنین کی بعض ذمہ 

داریوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ 
 ان چار آیات میں سے پہلی دوآیات میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پانچ اوصاف بیان ہوئے ہیں اور دوسری دو آیات میں پانچ ذمہ داریوں اور فرائض کا 

تذکرہ ہے جو سب کے سب آپس میں میں مربوط اورایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں پہلے فرمایا گیاہے: "اے پیغمبر ہم نے آپ کو شاہد اور گواہ کے طور پر بھیجا ہے":  (یایها النبی 

ارسلناک شاهدًا) ۔
 آنحضرت ایک طرف سے توامت کے اعمال پرگواہ ہیں کیونکہ آپؐ ان کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ جیساکہ ہم ایک اور جگہ بڑھتے ہیں:
  "وقل اعملو افسيرى الله عملكم ورسوله والمؤمنون"
  "کہہ دیجیئے کہ عمل کرتے رہو خدا، اس کا رسول اور مومنین (آئمه معصومینن) تمھارے اعمال کک دیکھتے ہیں"۔  (توبہ / 105) 
 پیغمبراکرمؐ اور آئمہ علیہم اسلام کے پاس امت کے اعمال کے پیش ہونے سے ان کے بارے میں ان کے علم و آگہی کی بات ثابت ہوجاتی ہے جس کی تفصیل اسی آیت 

کے ذیل میں ، تفسیر نمونہ ہشتم میں آچکی ہے۔ 
 دوسری طرف آپ گزشتہ انبیاء و پرشاہد ہیں جو خود اپنی امت کے گواہ تھے: 
  "فكيف اذاجئنامون كل امة بشهيد وجئنابك على هؤلاء شهيدًا"۔ 
  اس دن ان کی حالت کیسی ہوگی جس دن ہم ہرامت کے لیے ان کے اعمال پر گواہ طلب کریں گے اور آپ
  کو ان کے اعمال پر گواہ قرار دیں گے"۔       ( نساء / 41)۔ 
 اور تیسری فرط آپ اپنے وجود مقدس ،اوصاف حمیده ، اخلات حسنه ، اصلاحی پروگرام، روشن ماضٰ اور اعمال صالح کی وجہ سے اپنے مکتب کی حقانیت اور 

پروردگار کی عظمت و قدرت کے گواہ ہیں۔ 
 پھر دوسری اور تیسری صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:" ہم نے آپ کو بشارت دینے اور ڈرانے والا قرار دیا ہے" : ( ومبشرًا و نذیرًا(۔
  نیک لوگوں کو پروردگار عالم کے بے انتها اجر اور ہمیشہ کی سعادت و سلامتی اور قابل فخر کامیابی و کامرانی کی بشارت یعنی خوش خبری دینے والا اور کفار و 

منافقین کو خدا کے درد ناک عذاب ، تمام دجودی سرمایوں کے ضیاع اور دنیا و آخرت میں بدبختی کے گڑھوں میں جاگرنے  سے ڈرا نے والا۔ 
 جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ خوف امید کو ہر جگہ ایک دوسرے سے ملا ہوا اور باہم مساوی ہوناچائے ۔ کیونکه وجود انسانی کا آدھا حصہ تو فوائد کے 

حصول سے لگاؤ رکھتا ہے اور دوسرا نصف حصہ نقصان سے بچنے کی خواہش رکھتاہے " بشارت" کا سبب پہلا حصہ اور"انذار" کا سبب دوسرا حصہ ہے۔ وہ لوگ جو اپنے منصوبوں 

کاموں میں صرف ایک حصے  پر انحصار کرتے ہیں دراصل انھوں نے انسان کی حقیقت کوپہچانا ہی نہیں ہے اور نہ ہی انھوں نے اس کی اس حرکت کے اسباب وعلل کوئی توجہ کی  ہے۔ 

؎1 
 بعد والی آیت رسول اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی چوتھی اور پانچویں صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے"۔ ہم نے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی 

طرف دعوت دینے والا قرار دیا ہے اور روشنی عطا کرنے والا چراغ بھی" : ( وداعيا الى الله باذنه وسراجًا منیرًا) -