2- ختم نبوت کے دلائل
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۴۰
محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیائ علیھ السّلامکے خاتم ہیں اوراللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے.
2- ختم نبوت کے دلائل:
مندرجہ بالا آیت اگرچہ اس مطلب کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت کی دلیل اسی پر منحصر نہیں ہے ۔ کیونکہ
قرآن مجید کی دوسری آیات بھی اس معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور روایات تو کثرت سے موجود ہیں ۔ منجملہ ان کے سورۂ انعام کی آیت 19 میں ہم پڑھتے ہیں :
"واوحی الى هذا القران لانذركم به ومن بلغ "
"یہ قران مجھ پر وحی ہوا ہے تاکہ تمھیں اوران دوسرے لوگوں کو جن تک یہ قرآن پہنچے میں ڈراؤں (اور خداکی طرف
دعوت دوں)۔
"ومن بلغ" (تمام وہ لوگ جن تک یہ بات پہنچے) کی تعبیر کے مفہوم کی وسعت ایک طرف تو قرآن مجید اور پیغمبراسلامؑ کی عالمی رسالت کو واضح کرتی ہے اور دوسری
طرف ختم نبوت کو۔
دوسری آیات جو پیغمبرگرامی قدر کی عالمین کے لیے عمومی دعوت کو ثابت کرتی ہیں مثلًا:
"تبارك الذي نزل الفرقان علٰى عبدہٖ ليكون للعالمين نذیرًا"
"جاوید اور بابرکت بے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام اہل عالم کو ڈرائے"۔ (فرقان / 1)
اورمثلًا:
"وما ارسلناک الاکافة للناس بشيرًا ونذيرًا " (سبا / 128)
"ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر (تاکہ لوگوں کو جنت کی خوش خبری دیں اور جہنم سے ڈرائیں)
اور ارشاد الٰہی :
" قل يا ايها الناس انی رسول الله اليكم جميعًا "
"اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا ہوں": (اعراف / 158)
"عالمین" "ناس" اور "كافة“ کے مفہوم کی وسعت بھی اس معنی کی موید سے اس سے قطع نظر کہ ایک تو اس پر علماء اسلام کا اجتماع ہے ، دوسرے یہ مسئلہ
ضروریات دین میں سے ہے اور تیسرے پیغمبر اسلام اور دیگر پیشواؤں سے کثرت سے روایات ملتی ہیں جو اس مطلب کو بہت واضح کرتی ہیں۔ نمونہ کے طور پر ذیل کی چند روایات کو
ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
ہم پیغمبراکرم کی ایک مشہور حدیث میں پڑھتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا ہے :
حلالي حلال الٰى يوم القيامة وحرامی حرام الٰی یوم القيامة"۔
میرا حلال قیامت کی حلال ہے اور میرا حرام قیامت کے دن تک حرام ہے"۔ ؎1
یہ تعبیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک دنیا قائم سے شریعیت محمدی بھی قائم و برقرار ہے۔
بعض مقامات پر مذکورہ بالا حدیث یوں بھی نقل ہوئی ہے :
"حلال محمد حلال ابدًا الی یوم القيامة وحرامه حرام ابدًا الٰى يوم
القيامة لايكون غيره ولا یجی غیره"۔
" حلال محمد ہمیشہ کے لیے قیامت کے دن تک حلال ہے اور آپؐ کا حرام کیا ہوا ، ہمیشہ کے لئے قیامت
کے دن تک حرام ہے۔ اس کے علاوہ نہ کچھ ہوگااور نہ ہی کوئی آئے گا۔ ؎2
2- مشہور حدیث "منزلت" جو اہل تشیع اور اہل سنت کی مختلف کتابوں میں حضرت علیؑ کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ اس
کے مطابق جب آنحضرت جنگ تبوک میں شرکت کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور حضرت علیؑ کو مدینہ میں اپنی جگہ اپنا نائب بنایاتھا تو یہ حدیث مسئلہ خاتمیت کو بھی مکمل طور پر
واضح کرتی ہے ، کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
--
؎1 بحارالانور جلد 2 ص 228 باب ، 3 ، حدیث 17
؎2 اصول کافی جلد اول (وباب البدع والرائی والمقائیس) حدیث 19-
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
---
" أنت منی بمنزلة هارون من موسٰی الا انہ لانبی بعدی"۔
"یاعلی! تم میرے نزیدک وہی منشیات رکھتے ہو جو ہارون کو موسٰی سے تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے"
(اسی بناء پر تمہارے پاس سوائے نبوت کے ہارون کے باقی تمام مناصب موجود ہیں )۔ ؎1
۳- حدیث بھی مشہور ہے اور اہل سنت کے بہت سے منابع میں نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا:
" مثلي ومثل الانبياء كمثل رجل بنی بنیانا فاحسنه واجملہ فجمعل
الناس یطیفون بہ يقولون مارأينا بنيانا فا احسن من هذا الاهذه
اللبنۃ ، فكنت انا تلک اللبنة"۔
"گزشتہ انبیاء کے مقابلے میں میری مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو بہت ہی خوبصورت اور دلکش مکان تعمیر
کرے ، لوگ اس کے گرد پر لگائیں اور کہیں کہ اس سے بہتر کوئی عمارت نہیں ، لیکن اس کی صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی
ہے اور میں وہی آخری اینٹ ہوں"۔
یہ حدیث صحیح مسلم میں مختلف عبارتوں اور متعدد راویوں سے نقل ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک جگہ پر اس کے ذیل میں ایک جملہ یہ بھی آیا ہے :
" وأنا خاتم النبيين"۔
"میں خاتم الانبیاء ہوں"۔
ایک اور حدیث کے ذیل میں یہ جملہ بھی آیا ہے :
"جئت فختمت الانبياء"۔
میں آیا اورانبیاء ختم ہو گئے"۔ ؎2
نیز یہ صحیح بخاری (کتاب المناقب) میں مسند احمد بن حنبل ، سنن ترمذی ، سنن نسائی اور کئی دوسری کتب میں منقول ہے اور نہایت ہی مشہور ومعروف احادیث میں
سے ہے ۔ اسے شیعہ مفسرين ، مثلًا مرحوم طبرسی اور اہل سنت مفسرین جیسے مرحوم قرطبی نے اپنی تفاسیر میں زیر بحث آیت کے ضمن میں نقل کیا ہے .
4- نہج البلاغہ کے بہت سے خطبات میں بھی ختم نبوت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، جن میں سے خطبہ نمبر 173 ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یوں تعریف و توصیف کی گئی ہے :
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
-
؎1 اس حدیث کو "محب الدین طبرسی" نے ذخائر العقبٰی ص 79 و مطبوعہ مكتبہ القدس) میں ، ابن حجر نے صوائق محرقہ ص 177 (مطبوعہ مکتبۃ القاہر) میں تاریخ بغداد جلد
7، ص 452 (مطبوعہ السعادۃ) میں اور دوسری کتب مثلًا ، کنزالعمال ، منتخب کنز العمال اور ینابیع المودة میں بھی نقل کیا ہے (حدیث منزلت کے سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے نمونہ
کی جلد نمبر میں سوره اعراف آیت نمبر 143 کی طرف رجوع فرمائیں۔
؎2 صحیح مسلم جلد 4 ص 1790 و ص 1791 (باب ذکر کونہ خاتم النبین از کتاب الفضائل) -
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
---
" امين وحيه وخاتم رسلہ، و بشیررحمته ونذیرنقمه"۔
وہ حضرت محمد مصطفٰی وحی خدا کے امین پیغمبروں کے خاتم ، رحمت کی بشارت دینے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے ولے تھے۔
نیز خطبہ نمبر 133 میں یوں فرمایا ہے:
"ارسلہ علی حین فترۃ من الرسل ، وتنازع من الالسن ، فقفی به الرسل و
ختم بہ الوحی"۔
"خدا نے انھیں گذشتہ انبیاء کے دور فترت کے بعد بھیجا ،ایسے وقت میں جب مختلف مذاہب کے
درمیان نزاع اور جھگڑا پیدا ہوگیا تھا ۔ پس اللہ نے آپ کے ذریعے نبوت کی تکمیل فرمائی اور آپ ہی کے
اور ذریعے وحی کو ختم کیا"۔
اور نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ گزشتہ انبیاء و مرسلین کے لائحہ عمل کو ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
"الٰى ان بعث الله سبحانه محمدًا رسول الله الانجازعد ته و اتمام
نبورته"َ۔
"یہاں تک کہ خداوند تعالٰی وسبحانہ نے اپنے رسول حضرت محمد کو اپنے وعدوں کی تکمیل اورسلسلہ نبوت
کو ختم کرنے کے لیے مبعوث فرمایا"۔
5- حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے آخری حج اور آخری سال میں ایک جامع وصیت نام کی صورت میں لوگوں
سے جوخطبہ
بیان فرمایا ، اس میں بھی ختم نبوت کے مسئلے کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا۔
آپؐ نے فرمایا:
" الافليبلغ شاهد کم غائبكم لانبی بعدی ولا امة بعدكم"
حاضرین غانیبین تک یہ بات ضرور پہنچا دیں کہ نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ ہی تمھارے بعد کوئی امت ۔
پھر آپؐ نے اپنے باتھ آسمان کی طرف اس حد تک بلند کیے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور بارگاہ خدا میں عرض کیا:
" اللهم اشھداني قد بلغت"۔
"خدایا گواہ رہنا کہ مجھے جو کچھ کہنا چاہیئے تھا کہہ دیاہے"۔ ؎1
6- ایک اور حدیث میں جو کتاب کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے، اس میں ہے :
" ان الله ختم بنبیکم النبيين فلا نبي بعده ابدًا وختم "
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 بحارالانور جلد 21 ص 381
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
-
بكتابكم الكتب فلاكتاب بعده ابدًا"۔
خدا نے تمھارے پیغمبر کے ذریعے سلسلہ انبیاء کوختم کردیا ہے۔ اس بناء پر ان کے بعد کوئی اور بنی نہیں آئے گا
اور تمھاری آسمانی کتاب کے ساتھ آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے ، لہذا اس کے بعد ہرگز کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی"۔ ؎1
اسلامی ماخذ میں اس سلسلے کی بہت زیادہ احادیث میں یہاں تک کہ کتاب "معالم النبوة" میں 135 احادیث علما اسلام کی کتب سے جمع کی گئی ہیں جو پیغمبر اور اسلام
کے بزرگ پیشواؤں کی طرف سے اس سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں ۔ ؎2