4- کیا انبیاء بھی تقیہ کرتے ہیں؟
الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ۳۹
وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیںاوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے.
4- کیا انبیاء بھی تقیہ کرتے ہیں؟
کچھ لوگوں نے زیربحث آیت سے یہ سمجھا ہے کہ انبیاء کے لیے تبلیغ رسالت کے فریضے میں تقیہ کرناجائز نہیں ہے کیونکہ قرآن کہتاہے۔ "ولا فيخشون احدًا الا
الله"۔
لیکن توجہ رکھنا چاہیئے کہ "تقیہ" کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے ایک قسم کانام "تقیرخونی" ہے جس کی مذکورہ بالا آیت میں انبیاء کی دعوت اور ابلاغ رسالت کے
سلسلے میں نفی کی گئی ہے۔ لیکن تقیہ کی کچھ اور اقسام بھی ہیں جن میں سے ایک "تقیہ تجیبی" اور "پو ششی" ہے اور"تقیہ تجیبی“ سے مراد یہ ہے کہ انسان کبھی فریق مخالف کا دل
جیتنے کے لیئے اپنے عقیدے کو چھپاتا ہے تاکہ اسے فکری و نظری طور پراپنا ہم نوا بناسکے۔
اور "تقیہ پوششی" سے مراد یہ ہے کہ کبھی ہدف اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے منصوبوں اور ان کے مقدمات کو چھپایا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ عام ہوجائیں
اور دشمن ان سے آگاہ ہوجائیں میں تر ہوسکتا ہے کہ یہ منصوبے ناکام ہرجائیں۔
انبیاءاکرام خصوصًا پیغمبر اسلام کی زندگی تقیہ کی اس قسم سے بھری پڑی ہےکیونکہ سب کو معلوم ہے کہ بہت سے مواقع پر جب آپؐ میدان جنگ کی طرف روانہ
ہوتے تو اپنے مقصد کو مخفی رکھتے ، جنگ کے تمام منصوبے مکمل طور پر معرض خفا میں رہتے اوراستثنار کا انداز یعنی مقصد کو چھپائے رکھنا جو تقیہ کی ایک قسم ہے ، تمام مراحل
میں نافذ ہوتا۔
بعض اوقات کسی حکم کے بیان کرنے میں ایک مرحلہ وار روش سے بھی استفادہ کرتے جو تقیہ کی ایک قسم ہے ،مثلًا "تحری ربا" (سودکی حرمت) اور "شرب خرم" (
شراب پینے) کا مسئلہ ہے تو یہ ایک ہی مرحلہ میں بیان نہیں ہوئے بلکہ فرمان الٰہی سے کئی مراحل میں صورت پذیر ہوتے ہیں۔ یعنی زیادہ ہلکے مرحلے سے شروع ہوکر اپنے آخری اور
اصلی حکم جاپہنچے۔
بہرحال تقیہ کا ایک بہت ہی وسیع معنی ہے یعنی "مقصد کے حصول کو خطرے میں پڑنے سے بچانے کے لیے حقیقت کو چھپانا "۔اور یہ ایسی چیز ہے اپنے تمام
عقلائے عالم نے اپنایا ہوا ہے اور خدائی رہبرا اپنے مقدس مشن کوکامیاب کرنے کے لیے کئی مراحل پر اپاناتے ہیں۔ جبکہ توحید کے ہیرو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی داستان میں ہے
کہ جس دن بت پرست لوگ عید کے مراسم
کی ادئیگی کےلیے شہر سے باہرجا رہے تھے توآپ نے اپنے مقصد کومخفی رکھا تاکہ موقع سے فائدہ اٹھاکربتوں کو پاش پاش کردیں۔
نیز "مومن آل فرعون" نے حساس مواقع پر حضرت موسٰی کی مدد کرنے اور انھیں قتل ہونے سے بچانے کےلیے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا جس کی وجہ سے قرآن نے
انھیں عظمت کے ساتھ یاد کیاہے۔
بہرحال صرف" خوف والاتقیہ" ہی ہیغمبروں کے لیے جائز نہیں نہ کہ تقیہ کی دوسری اقسام بھی۔
اگرچہ اس سلسے میں بہت سخن ہائے گفتنی ہیں لیکن امام جعفر صادق علیہ اسلام کے ایک جامع فرمان کے ساتھ اس بحث کو ختم کرتے ہیں ۔ امام علیہ السلام فرماتے
ہیں:
"التقية دیني ودین ابائی ، ولادین لمن لا تقية له والية ترس الله في الارض،
لان مؤمن آل فرعون لو اظهرالاسلام لقتل"۔
"تقیہ میرا اور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے۔ جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس کا دین نہیں ہے ، تقیہ خدا کی مضبوط ڈھال ہے
کیونکہ اگر مومن آل فرعون اپنے ایمان کوظاہر کرتے تو یقینًا قتل ہوجاتے (خطرہ کی صورت میں دین موسٰی کی حفاظت کے
سلسلے میں پیغام حق کا فریضہ انجام نہ پاسکتا)۔ ؎1
تقیہ کے بارے میں ہم تفصیلی بحث جلد 11 میں سورہ نحل کی آیت نمبر 106 کے ذیل میں کرچکے ہیں۔