Tafseer e Namoona

Topic

											

									  2- "خشیت" کا معنٰی

										
																									
								

Ayat No : 39

: الاحزاب

الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ۳۹

Translation

وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیںاوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے.

Tafseer

									 2- "خشیت" کا معنٰی: 
 اس کا معنی ایساخوف ہے جب تعظیم کے اور احترام کے ساتھ ہوا۔ اس بنا پر اس کا خوف کا معنی الگ ہوگا جس میں یہ خصوصیت ، پانی جاتی ہو اور جی کبھی کبھار یہ 

لفظ مطلق خوف کے معنی میں بھی آتا ہے۔ 
 محقق طوسی کی بعض تالیفات میں ان دوالفاظ کے فرق کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو درحقیقت اس کے عرفانی معنی کی غمازہے نہ کہ اس کے لغوی معنی کی۔ وہ 

کہتے ہیں "خشیت" اور "خوف" اگرچہ لغت میں ایک ہی معنی (یاتقریبًا ایک معنی) میں ہیں۔ لیکن صاحب دل کے افراد کے ان دونوں کے درمیان فرق ہے اور وہ یہ کہ "خوف" اس مجازات 

اور سزاسے باطنی خلش اور پریشانی کے معنی میں ہے کہ انسان گناہ کے ارتکاب یا اطاعت میں کوتاہی کی وجہ سے جس کی توقع رکھتا ہے اور یہ کیفیت اکثرلوگوں کی ہوجاتی ہے۔ اگر 

اس کے مراتب بہت مختلف ہیں اوراس کا اعلٰی مرتبہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ 
 لیکن "خشیت" ایک ایسی کیفیت ہے جو خدا کی عظمت اور اس کی ہیبت کے ادراک اور اس کے فیض کے انوار سے دور اور محروم رہنے کے خوف سے کسی انسان پر 

طاری ہوجاتی ہے اور یہ ایسی حالت ہے جو سوائے ان لوگوں کے جو ذات پاک کی عظمت اور اس کے مقام کبریائی سے واقف ہیں اور انھوں نے اس کے قرب کی لذت چکھی ہوئی ہو ، 

کسی اور کو حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن نے اس حالت کو عالم آگا بندوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور کہا ہے : 
  "انا یخشی الله من عباده العلماء" 
  اللہ سے خشیت کرنے والے بس علماء ہی ہیں۔ ؎1