Tafseer e Namoona

Topic

											

									  4- آیات کی معنی خیز تعبیریں

										
																									
								

Ayat No : 26-27

: الاحزاب

وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ۲۶وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ۲۷

Translation

اور اس نے کفار کی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار دیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے کچھ کو قتل کررہے تھے اور کچھ کو قیدی بنارہے تھے. اور پھر تمہیں ان کی زمین, ان کے دیار اور ان کے اموال اور زمینوں کا بھی وارث بنادیا جن میں تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا اور بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے.

Tafseer

									 4- آیات کی معنی خیز تعبیریں:
 زیر نظر آیات میں مختلف تعبیریں  دکهائی دیتی ہیں ۔ ان میں ایکی یہ ہے کہ اس  جنگ میں قتل ہونے والوں کے بارے میں قران کہتا ہے "فریقًا تقتلون  

يعني" فریقًا" کو "تقتلون" پر قدم رکھا گیا ہے ۔ حالانکہ قیدیوں کے بارے میں "فریقًا" کو اس کے فعل یعنی "تأسرون " سے موخر رکھا گیا ہے۔.بعض  مفسرین نے اس بارے میں کہا ہے کہ 

یہ اس بناء پر ہے کہ قتل ہونے والے زیادہ یہودیوں  کے سرغنے تھے لیکن قید ہونے والے غیرمعروف افرادتھے ۔ علاوہ ازیں یہ تقدیم وتاخیر سبب ہوئی کے قتل اور قید جو دشمن پر 

کامیابی کے دو اہم عامل تھے ایک دوسرے کے ساتھ آگئے ہیں اوران کے درمیان تناسب اور تعلق کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
 نیز پہلی زیر بحث آیت میں ، یہودیوں کو ان کے قعلوں سے نیچے لانا "قذف في قلوبهم الرعب"  (خدانے ان کے دلوں میں رعب و وحشت ڈال دی) سے پہلے ذکر کیا ہے۔ 

حالا تک فطری ترتیب اس کے برخلاف ہے یعنی پہلے  رعب پیدا ہوتا ہے اور پھران محکم قلعوں سے نیچے آنا ہوتاہے ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ جو کچھ مسلمانوں کے لیے زیادہ اہم اور 

مسرورکن تھا اور ان کے اصل مقصد کو تشکیل دیتا تھا، وہ ان کے بہت ہی مستحکم قلعوں کا ٹوٹنا تھا۔ 
 " اورثكم  ارضهم و دیارھم " کی تعبیر بھی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ تم بغیر اس کے کہ اس جنگ کے لیے کچھ بھی زحمت برداشت کرتے ، خدا نے ان کی زمینیں 

، گھر اور مال و دولت سب کچھ تمھارے اختیار میں دے دیا۔  
 آخری آیت میں خدا کی لازوال قدرت کا ذکر اور " وكان الله على كل شيءٍ قديرًا " اس طرف اشارہ ہے کہ اس نے ایک دن آندھی اور طوفان اور نظرنہ آنے والے لشکر 

کے ذریعہ احزاب کوشکست دی اور دوسرے دن رعب و وحشت کے لشکرسے ان کے حامیوں یعنی بنی قریظہ کے یہودیوں کا ستیاناس کردیا۔