Tafseer e Namoona

Topic

											

									  درس یگانگی و اتحاد

										
																									
								

Ayat No : 200-202

: البقرة

فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۲۰۰وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۲۰۱أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ۲۰۲

Translation

پھر جب سارے مناسک تمام کرلو توخدا کو اسی طرح یاد رکھوجس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا ہی میں نیکی دے دے اور ان کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں ہے. اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہّنم سے محفوظ فرما. یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصّہ ہے اور خدا بہت جلد حساب کرنے والاہے.

Tafseer

									ثم افیضوا من حیث الفاض الناس 
رب جلیل نے اس آیت میں ایک امتیاز اور خصوصت پر خط لبطلان کھینچا ہے جس کے قریش مکہ اپنے بارے میں قائل تھے قریش اپنے تئیں حمس ۔۱

(بروزن خمس ) کہتے تھے اور وہ اپنے آپ کو اولاد ابراہیم اور سرپرست کعبہ قرار دیتے تھے۔ 
وہ کسی عرب کو اپنے برابر نہ سمجھتے تھے وہ کہتے تھے حریم مکہ سے با ہر رہنے والوں کے برابر نہیں کرنا چاہئیے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو عرب ہماری قدر و قیمت کی قائل نہیں ہوں گے۔ اسی بناء پر انہوں نے عرفات میں ٹھہر نے کو ترک کردیا تھا کیونکہ وہ محیط حرم سے با ہر تھا حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ فرائض حج اور دین ابراہیم کا جزو ہے۔۲۔

مندرجہ بالا آیت میں قرآن حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ سب ایک ہی جگہ عرفات میں وقوف کریں اور وہاں سے سب کے سب مشعر کی طرف آجائیں اور پھر وہاں سے سرزمین منی کی طرف کوچ کریں ۔ 
و استغفروا اللہ

 
۱۔ حمس کا معنی ہے وہ افراد جو اپنے دین میں مستحکم ہوں۔
۲۔ سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۲۱۱، ۲۱۲