Tafseer e Namoona

Topic

											

									  عرفات کو عرفات کیوں کہتے ہیں

										
																									
								

Ayat No : 198-199

: البقرة

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ۱۹۸ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۹۹

Translation

تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو پھر جب عرفات سے کوچ کرو تو مشعرالحرام کے پاس ذکر خداکرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے ہدایت دی ہے اگرچہ تم لوگ اس کے پہلے گمراہوں میں سے تھے. پھر تمام لوگوں کی طرح تم بھی کوچ کرو اور اللہ سے استغفار کروکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.

Tafseer

									ہم کہہ چکے ہیں کہ عرفات مکہ سے چار فرسخ کے فاصلے پر ایک وسیع و عریض بیابان ہے۔ وہاں حاجی حضرات نویں ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے لے کر غروب تک ٹھہر تے ہیں۔ 
اس سرزمین کانام عرفات کیوںہے۔ اس بار ے میں بہت سے پہلومذ کور ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب خدا کی وحی کا قاصد جبرئیل حضرت ابراہیم کو مناسک حج کی نشاند ہی کروارہا تھا تو حضرت ابراہیم کہتے (عرفت) عرفت یعنی میں نے پہچان لیا ۔
لیکن بعید نہیں کہ یا نام رکھنا ایک اور حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہو اور وہ یہ کہ یہ سرزمین جہاں سے مراحل حج شروع ہوتے ہیں معرفت پروردگار اور اس کی پاک ذات کو پہچا ننے کے لیے بہت آمادہ اور تیار ما حول مہیا کر تی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ وہ روحانی اور معنوی جذ بہ جو انسان میں اس سرزمین میں داخل ہو تے وقت پیدا ہوتا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ 
سب ایک ہی صورت میں ، سب ایک انداز میں ، سب بیابان نشیں ، شہر کی شورغل سے دور ، مادی دنیا کے ہاوٴ ہو س سے پرے ، زرق و برق دنیا سے او جھل ایک آزاد اور گناہ سے پاک فضا میں آسمان کے سائے تلے اس جگہ جہاں فرشتہ وحی کے چھو تے رہے جہاں سے جبرئیل کا زمزمہ ، ابراہیم خلیل اللہ کی مردانہ وار پکار پیغمبر اسلام ﷺ اور صدر اول کے مجاہدین کی حیات بخش صدا کی بھنبھناہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ وہ مقام جہاں انسان نہ صرف یہ کہ عرفان پروردگار کے نشہ میں سر مست ہو جا تا ہے اور کچھ لمحوں کے لیے ساری مخلوق کی تسبیح کے سرورسے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
بلکہ اپنے وجود کے اندر اپنی کھوئی ذات کو جس کی تلاش میں تھا پالیتاہے اور اپنی ذات کا عارف ہوجاتاہے
اس مقام پروہ جان لیتا ہے کہ وہ وہ شخص نہیں جو رات دن تلاش معاش میں حریصانہ کوہ و صحرا کی وسعتوں کو اپنے قدموں سے ماپتا رہتا تھا اور جو کچھ ملتا تھا اس سے سیراب نہ ہوتا تھا یہاں وہ جان لیتا ہے کہ ایک اور گوہر اس کی روح کے اندر چھپا ہوا ہے جو در اصل اس کے وجود کی حقیقت ہے۔
جی ہاں اس سرزمین کوعرفات کہتے ہیں۔ کس قدر عمدہ اور مناسب نام ہے۔