صرف وحی الٰہی پیروی کریں
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۱وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ۲وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا ۳
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہئیے اور خبردار کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجئے گا یقینا اللہ ہر شے کا جاننے والا اور صاحب ه حکمت ہے. اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اسی کا اتباع کرتے رہیں کہ اللہ تم لوگوں کے اعمال سے خوب باخبر ہے. اور اپنے خدا پر اعتماد کیجئے کہ وہ نگرانی کے لئے بہت کافی ہے.
تفسیر
صرف وحی الٰہی پیروی کریں:
خطرناک لغزشیں جو عظیم رہبروں کے راستوں میں قرارپائی ہیں ، مخالفین کی طرف سے سودے بازی پر مبنی پیش کش ہواکرتی ہیں۔ اور ایسے ہی موقع پر راہ راست سے ہٹادینے والے خطوط رہبروں کے درپیش ہوتے رہتے ہیں اور دشمن کوشش کرتا ہے کہ انھیں راہ راست اور صراط مستقیم سے ہٹادے اور یہ ان کے لیے ایک عظیم آزمائش ہوتی ہے۔
"مشرکین مکہ" اور "منافقین مدینہ" نے بارہا کوشش کی کہ سودے بازی پرمبنی پیش کشوں کے ذریعہ پیغمبراسلامؐ کو "خط توحید" سے منحرف کردیں ۔ منجملہ ان کے وہی پیش کش ہے جو اوپرشان نزول میں ذکر ہوچکی ہے۔
لیکن سورہ احزاب کی پہلی آیات نے نازل ہوکر ان کی سازش کو ختم کردیا (اور اس پرپانی پھیر دیا) اور پیغمبرکو دوٹوک اندازمیں خط توحید کی روش کو کسی قسم کی سودے بازی کے کئے بغیر جاری رکھنے کا حکم دیا۔
یہ آیات مجموعی طور پر پیغمبراکرمؐ کو چاراہم حکم د ے رہی ہیں:
پہلا حکم ۔ تفوےٰ اور پرہیزگاری کے سلسلہ میں ہے ، جو دوسرے تمام پروگراموں کے لیے بنیادی عنصر ہے۔ فرماتا ہے ۔ "اے پیغمبر! تقوٰے اختیار کرو: (یا ایها النبی اتق الله)۔
"تقوٰی" درحقیقت وہی باطنی ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس ہے۔ اور جب تک یہ احساس موجود نہ ہو انسان کسی بھی اصلاحی پروگرام کے حرکت نہیں کرتا۔
"تقوٰے" ہدایت اور آیات الٰہی سے بہرہ در ہونے اور فائدہ اٹھانے پر آمادہ کرنا ہے ، جیسا کہ سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں "ھدی للمتقین" یہ قرآن پر ہیزگاروں کے لیے سبب ہدایت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ تقوےٰ کا آخری اور حقیقی مرحلہ ایمان اور احکام خداوندی پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوتاہے ، لیکن اس کو پہلا مرحلہ ان تمام مسائل سے پہلے قرار پاتا ہے کیونکہ انسان اگر اپنے اندر ذمہ داری کو احساس نہ کرے تو نہ پیغمبروں کی دعوت کی تحقیق کرنے کی زحمت کرتا ہے اور نہ ہی ان کی باتوں پر کان دھرتا ہے یہاں تک کہ "دفع ضررمتحمل" کا مسئلہ جسے علماء علم کلام وعقائد کرنے معرفتہ الٰہی کے لیے کوشش کی بنیاد کے طور پر ذکر کیا ہے ، حقیقت میں تقوٰی کی ایک شاخ ہے۔
دوسرا حکم: کفار و منافقین کی اطاعت کی نفی ہے، خدا فرماتا ہے ۔" کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو"۔ ( ولا تطع الكافرين و العافقين)۔
اس آیت کے آخر میں اس موضوع کی تاکید کے لیے کہتا ہے ۔ "خدا عالم اور حکیم ہے"۔ ( ان الله كان عليمًا حكيمًا)۔
اگر وہ آپ کو ان کی پیروی ترک کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اس کے لامتناہی علم وحکمت کی بناء پر ہے ، کیونکہ وہ جاتنا ہے کہ ان کی اس اطاعت اور سودے بازی میں کیا کیا دردناک مصائب اور کیسے کیسے بے شمار مفاسد پنہاں ہیں۔
بہرحال تقوٰے اوراحساس ذمہ داری کے بعد پہلا فرایضہ صفحہ قلب کو غیر خدا کی محبت سے صاف اور پاک کرنا ہے اوراس سرزمین سے مزاحمت کرنے والے کانٹوں کی بیخ کنی کرنا ہے۔
تیسرے حکم میں عقیدہ توحید کی تخم ریزی اور وحی الٰہی کی اتباع کرنے کے مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے۔
"جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پروحی ہوتی ہے ، اس کی پیروی کرو:" ( واتبع ما يوحي اليك من ربک) ۔
اور اچھی طرح خبردار رہو کہ "جو کچھ تم انجام دیتے ہو اللہ اس سے آگاہ ہے :" (ان الله كان بما تعملون خبیرًا)۔
اس بناء پر پہلے عفریت کو دل و جان سے نکالیں تاکہ اس میں فرشتہ آسکے ۔ کانٹوں کو ختم کریں تاکہ پھولوں کی تخم ریزی ہوسکے۔
طاغوت کو دور کرکے اس سے خود کو پاک کرنا چاہیئے تاکہ اللہ کی حکومت اور نظام الٰہی اس کی جگہ لے سکے۔
اور چونکہ اس راہ پر چلنے کے لیے مصائب و مشکلات بہت زیادہ ہیں، سازشوں کے جال بچھے ہوئے ہیں. قدم قدم پر روڑے لگائے جاتے ہیں ۔ لہذا چوتھے حکم کواس شکل میں صادر کرتا ہے۔ "خدا پر توکل کرو اور ان لوگوں کی سازشوں سے نہ ڈرو": (وتوكل على الله)۔
"اور یہی کافی ہے کہ خدا انسان کا ولی و حافظ اور مدافع و حامی ہے": ( وكفى بالله وكيلًا) .
اگر ہزار دشمن بھی آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کرلیں ، لیکن چونکہ میں آپ کا دوست اور یاور ہوں لہذا دشمنوں سے بھی ہراساں نہ ہوں۔
اگرچہ ان آیات میں مخاطب پیغمبر کی ذات ہے ، لیکن واضح ہے کہ یہ تمام مومنین اور تمام عالم اسلام کے لیے یکساں حکم ہے ۔ یہ ہردور اور ہر زمانہ کے لیے نجات بخش نسخہ ہے۔
بعض مفسرین نے کہا ہے "یاایها" کا خطاب ان موارو کے ساتھ مخصوص ہے جہاں مقصد سب لوگوں کی توجہ کو کسی مطلب کی طرف مبذول کرنا ہو اگرچہ مخاطب ایک ہی شخص ہو بخلاف "یا" کے خطاب کے جس کا عام طور پر اطلاق ایسے موارد میں ہوتا ہے، جہاں مراد مخاطب کی ذات ہوتی ہے۔ ؎1
اور چونکہ زیر بحث آیات میں "یا ایها" سے خطاب شروع ہوا ہے لہذا ان آیات کے مقصد کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔
عمومیت (سب) کے لیے ہونے کا ایک اور شاہد یہ ہے کہ "ان الله كان بما تعملون خبيرًا" کا جملہ جمع کی صورت میں آیا بے یعنی" خدا تم سب کے اعمال سے آگاہ ہے"۔ اگرصرف پیغمبر مخاطب ہوتے تو کہا جاتا کہ خدا تیرے عمل سے آگاہ ہے ۔(غور کیجئے گا)۔
کچھ کہے بغیرواضح ہے کہ پیغمبر کو یہ حکم دینے کا مقصد نہیں کہ آنجناب تقوٰی کے بارے میں یا کفار ومنافقین کی اطاعت ترک کرنے کے مسئلہ میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام لیتے تھے ، بلکہ اس قسم کے احکام جہاں ایک طرف پیغمبر کے وظائف اور ذمہ داریوں کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، وہاں پرتمام مومنین کے لیے درس بھی ہے۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیرفخررازی جلد 25 ص 190 زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------