Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ہماری کامیابی کا دن

										
																									
								

Ayat No : 26-30

: السجدة

أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ ۲۶أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ ۲۷وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۲۸قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ۲۹فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ ۳۰

Translation

تو کیا ان کی ہدایت کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا ہے جن کی بستیوں میں یہ چل پھررہے ہیں اور اس میں ہماری بہت سی نشانیاں ہیں تو کیا یہ سنتے نہیں ہیں. کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ ہم پانی کو چٹیل میدان کی طرف بہالے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ زراعت پیدا کرتے ہیں جسے یہ خود بھی کھاتے ہیں اور ان کے جانور بھی کھاتے ہیں تو کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں. اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ آخر وہ فتح کا دن کب آئے گا اگر آپ لوگ سچےّ ہیں. تو کہہ دیجئے کہ فتح کے دن پھر کفر اختیار کرنے والوں کا ایمان کام نہیں آئے گا اور نہ انہیں مہلت ہی دی جائے گی. لہذا آپ ان سے کنارہ کش رہیں اور وقت کا انتظار کریں کہ یہ بھی انتظار کرنے والے ہیں.

Tafseer

									  تفسیر
             ہماری کامیابی کا دن :
 گذشتہ آیات میں بے ایمان مجرمین کی تنبیہ موجود ہوتھی اور زیربحث پہلی آیت بھی اس تنبیہ کی تشریح اورتکمیل کے طور پرہے فرماتا ہے۔" کیا یہی بات ان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے کہ لوگوں میں سے بہت سے افراد جو ان سے صدیوں پہلے زندگی بسر کرتے تھے ، ہم نے انہیں ہلاک کیا اور انھیں ان کے اعمال کی سزا دی"۔ (اولم یهدلهم كم اهلكنا من قبلهم من القروان)۔ ؎1 
 " یہ ان کے ویران شدہ گھروں میں چلتے پھرتے ہیں"۔ اور ان نفرین شده اقوام کے آثار اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں: (يمشون في مسلكنھم)۔ ؎2 
۔--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
  ؎1     "لم یهد" کا فاعل ایک مفہوم ہے جو "كم اهلكنا من قبلھم" کے جملہ سے سمجھا جاتا ہے. تقدیری طور پر یوں ہے "اولم یهدلهم كثرة من اهلكنا"۔ 
  ؎2     اکثر مفسرین اس آیت کو اسی طرح بیان کرتے ہیں، جس طرح ہم اوپر کہہ چکے ہیں ۔ لیکن بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ "یمشون" کا جملہ ہلاک ہونے والوں کی حالت بیان کررہا ہے یعنی ان کی حالت یہ تھی کہ وہ عذاب الٰہی سے پوری طرح بے خبر تھے اور اپنے گھروں میں چل پھر رہتے تھے کہ اچانک عذاب الٰہی آپہنچا اور انھیں ہلاک کر دیا لیکن یہ احتمال بعید نظر آتا ہے۔
۔-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 "عاد" و "ثمود" کی عذاب میں مبتلا سرزمین اور "قوم لوط" کے ویران شدہ شہر شام کی طرف جاتے ہوئے ان کے راستہ میں وجود ہے۔ جس وقت ان سرزمینوں سے گزرتے ہیں جو ایک دن قدرت مند لیکن گمراه آلودۂ گناہ اقوام کے مرکز تھیں ، جتنا پیغمبر و انبیاء انھیں خبردار کرتے ، اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ان کا عذاب الٰہی نے ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔ تو گویا بیابان کا ایکی ایک سنگریزہ اوران کے ویران شد و قصور و محلات زبان حال کے ساتھ پکار پکار کر ان کی کفر آلود زندگی کا انجام بیان کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مکمل طور پر اپنے کان کھو بیٹھے ہیں جوسن نہیں پاتے۔ 
 اس لیے آیت کے آخری میں مزید کہتا ہے "اس موضوع میں قدرت خدا کی نشانیاں اور عبرت کے درس ہیں ۔ کیا وہ سنتے نہیں ہیں؟ : (ان فی ذالك لأيات افلا يسمعون) 
 بعد والی آیت میں ایک اہم ترین نعمت الٰہی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو تمام زمینوں کی آبادی کا سبب اور تمام زندہ موجودات کی حیات کا ذریعہ ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ جس طرح خدا شہکار لوگوں کی زمینوں کے ویران کرنے کی قدرت رکھتا ہے ، اسی طرح ویران اور مردہ زمینوں کے آباد کرنے اور اپنے بندوں کو ہرقسم کی نمت و بخشش عطا کرنے پر بھی قادرہے ۔
 فرماتا ہے "کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ تم پانی کو خشک اور بے آب و گیاه زمینوں کی طرف چلاتے ہیں اور اس کے ذریعہ فصیلں اگاتے ہیں کہ جس سے ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی غذا حاصل کرتے ہیں ۔ کیا وہ دیکھتے نہیں؟" (اولم يروا انا نسوق الماء الى الارض الجرز فنخرج به زرعًا تأكل منه انعامهم وائفسھم افلایبصرون)، 
 "جرز" (بروزن "شتر")اس زمین کو کہتے ہیں جس سے ہر قسم کے سبزہ کی بیخ کنی کی جاچکی ہو یا بالفاظ دیگر جس میں کسی قسم کی گھاس پھونس نہ اگ سکے اور یہ دراصل "جرز" (بروزن "مراض") کے مادہ سے قطع کرنے یا کاٹ دینے کے معنی میں ہے۔ گویا ہر قسم کی گھاس اس سرزمین سے کاٹ دی گئی ہے یا خود زمین نے اس سبزے کو کاٹ دیا ہے۔ 
 قابل توجہ یہ ہے کے یہاں "نسوق الماء" (ہم پانی کو چلاتے ہیں) کی تعبیر بیان ہوئی ہے۔ جو اس طرف اشارہ ہے کہ پانی کی طبعیت اور اس کامزاج اپنی سنگینی کی بناء پر اس بات کا تقاضاکرتے ہیں کہ وہ زمین کے اوپر اور گڑھوں میں موجود ہو اور اس کے سیال ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے زمین کی گہرائیوں کے اندر ہونا چاہیے ۔ لیکن جس وقت اسے ہمارا فرمان پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنی طبیعت کو چھوڑ کر ہلکے بخار میں تبدیل ہوکر ہوا کے چلنے سے ہرطرف حرکت کرتا رہتا ہے۔ 
 جی ہاں یہی بادل جو آسمان کی بلندی میں ہیں درحقیقت میٹھے پانی کے عظیم سمندر ہیں ۔ جو حکم خدا کے مطابق ہواؤں کی مدد سے خشک زمینوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ 
 سچ مچ اگر بارش نہ ہوتی تو بہت سی زمینیں پانی کا ایک قطرہ میں نہ دیکھ پاتیں ۔ حتی کہ اگر بالفرض دریا اور ندی نالے پانی سے لبریز بھی ہوتے تو بھی پانی ان زمینوں پرمسلط نہ ہوسکتا۔ لیکن اب جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس رحمت الٰہی کی برکت سے بہت سے پہاڑوں کی بلندیاں ، دشوار گزار درے ، اونچے اونچے ٹیلے اور اوپر کے بہت سے جنگل ، فراواں درخت اور بہت سے سبزه جات سے سبزہ زار بنے ہوئے ہیں تو آبیاری کی یہ عجیب قدرت صرف بارش میں ہے۔ کسی اور چیز میں یہ طاقت نہیں تھی۔
 "زرع" یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہرقسم کی نباتات اور درختوں کو شامل ہے ۔ اگرچہ کبھی کبھار استعمال کے موقع پرصرف درخت کے مقابل قرار پاتا ہے۔ 
 اس آیت میں "چوپاؤں" کو انسانوں " پر مقدم اس بناء پر کیا گیا ہے کہ چو پاؤں کی ساری غذا بناتات اور گھاس سےہے جب کہ انسان کی غذا سبزہ بھی ہے اور چوپاؤں کا گوشت بھی۔ 
 اور یا اس بناء پر کہ نباتات آگتے ہی چوپاؤں کے لیے قابل استفادہ ہوتی ہیں جب کہ انسان کا نباتات سے استفاده عام طوربعد کے زمانہ متعلق ہوتاہے ۔ یعنی جس وقت وہ ا پنے وہ دانے اور پھل کا بار اٹھا لیتے ہیں۔ 
 قابل توجہ یہ بات ہے کہ زیر بحث آیت کے آخر میں "افلايبصرون" (کیا وہ دیکھتے نہیں ہیں) کا مجملہ آیا ہے جبکہ گذشتہ آیت کے ذیل میں جہاں گذشتہ قوموں کے ویران شده قصور و محلات اور گھروں کی بات ہے " افلا یسمعون (کیا وہ سنتے نہیں) کا جملہ آیا ہے۔ 
 یہ فرق اس بناء پر ہے کہ بنجرزمینوں کے زندہ ہونے کا منظر بارش کے نزول کی وجہ سے سب لوگ آنکھ سے دیکھتے ہیں جبکہ گذشتہ قوموں سے متعلق مسائل عام طور پر خبروں کے طور پر سنتے ہیں۔ 
 اوپر والی دونوں آیات کے مجموعہ سے جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ گویا خدا اس سرکش گروہ سے فرماتا ہے کہ اپنی آنکھ اور کان کھول کر حقائق کرسنو، دیکھو اور ان پرغور کرو کہ کس طرح ہم نے ایک دن ہواؤں کو حکم دیا کہ قوم عاد کے قصور اور محلات کوتباه و برباد کرودو ۔ دوسرے دن انھیں ہواؤں کو حکم دیا کہ پانی سے بھرے بادلوں کو مردہ اور بنجر زمینوں کی طرف لے جاؤ اور انھیں آباد و سرسبز کرو. کیا ہماری اس ہماری قدرت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے ہو؟ 
 چونکہ گذشتہ آیات مجرمین کو انتقام کی تہدید اور مومنین کو امامت ، پیشوائی اور کامیابی کی بشارت دے رہی تھیں ، یہاں پر کفار غرور ونخوت سے یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ یہ وعدے اور وعید کب عملی صورت اختیار کریں گے؟ جیساکہ قرآن فرماتا ہے"۔ وہ کہتے ہیں ، اگرتم سچ کہتے ہو توتمہاری یہ فتح وکامرانی کب آئے گی؟" ( ويقولون متٰی  ھذا الفتح ان كنتم صادقین)۔ 
 تو قرآن فورًا انھیں یہ جواب دیتا ہے اور پیغمبرؐ کو حکم دیتا ہے۔ "کہہ دے آخر کار کامیابی کے دن کے رہے گا۔ لیکن اس دن ایمان لانا کافروں کے لیے سودمند ہوگا اور کسی قسم کی انھیں مہلت بھی نہیں دی جائے گی؟" 
  (كل يوم الفتع الأيفع الذين كفروا ايمانهم ولا هم ينظرون) - 
  یعنی اگر تمھارا مقصد یہ ہے کہ خدائی وعدوں کی صداقت جو پیغمبر کی زبانی تم نے سنی ہے ، اسے آنکھوں سے دیکھو اور پھرایمان لے آؤ تو پھراس دن دیر ہوچکی ہوگی اورایمان تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ 
 جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ " يوم الفتح" سے "عذاب استیصال" کے نزول کے دن ہے یعنی دو عذاب جو کفار کی بیخ کنی کر دے گا اور انہیں ایمان لانے کا موقع بھی نہیں دے گا۔ دوسرے لفظوں میں عذاب استیصال دنیاوی عذاب کی ایک قسم ہے نہ کہ عذاب آخرت کی اور نہ عام دنیا کے عذابوں کی جو مکمل طور پر اتمام حجت کے بعد گناہگار قوموں کی زندگی کو ختم کر دیتے ہیں۔ 
 اس گفتگو کے شاہد چند امورہیں: 
 الف :-     اگرعذاب مراد عام عذاب بویا جنگ بدر یا روز فتح مکہ جیسی مسلمانوں کی کامیابی مراد ہو ،جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے تو" لاينفع الذين كفروا ایمانهم" (اس دن کفار کو ان کا ایمان نفع نہیں دے گا) ٹھیک نہیں ہوگا۔ کیونکہ فتح بدر کے دن بھی  اور فتح مکہ کے روز میں ایمان لانا مفید تھا اور توبہ کے دروازے کھلے ہوۓ تھے۔ 
 ب :-      اور اگر (یوم الفتح" سے مراد قیامت کا دن ہو ، جیسا کہ بعض مفسرین نے اسے اپنایا ہے تو وہ "ولاهم ينظرون"  "انھیں مہلت نہیں دی جائے گی" کے جملہ کے سات سازگار نہیں ہے ، کیونکہ مہلت دینا یا نہ دینا اس دنیا کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس سے قطع نظر قرآن کے کسی مورد میں بھی "یوم الفتح" کے الفاظ اور قیامت کے معنی میں استعمال نہیں ہوئے۔ 
 ج:- "فتح" کی تعبیر "عذاب استیصال" کے بارے میں قرآن مجید میں بار بار نظر آتی ہے۔ مثلًا سوره شعراء کی آیت 118 کہ جہاں حضرت نوح کہتے ہیں: (فافتح بین وبینهم فتحًاونجنی ومن معي من المومنین)۔ "پروردگارا ! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر اور اس ستم گر قوم کی بیخ کنی فرما اور مجھے ان تمام مومنین کو جو میرے ساتھ ہیں، نجات دے" جو عذاب طوفان کی طرف اشارہ ہے ۔
 اسی طرح سورہ مومنون کی آیت 77 میں بھی یہی صورت حال ہے . 
 لیکن اگر مراد دنیاکا "عذاب ا سیتصال" ہوتو جو کچھ ہم نے اوپر کہا ہے اس سے سازگار اور اوپر کے تمام قرائن سے ہم آہنگ ہے۔ اور واقع میں کفار و ظالمین کو تنبیہ ہے کہ اس قدر مومنین کی کامیابی اور کفار کے عذاب استیصال کے وعده کی درخواست نہ کرو ۔ کیونکہ اگر اس درخواست کو عملی شکل دے دی گئی تو نہ تو پھرتمھیں موقع دیا جائے گا اور اگر موقع ملا بھی اور تم ایمان لے بھی آئے تو قابل قبول نہیں ہوگا۔ 
  یہ معنی خصوصیت کے ساتھ ہیں گزشتہ آیات کے ساتھ ہیں جو سرکش قوموں کی ہلاکت کے بارے میں ہیں جو قرون گذشتہ میں زندگی بسر کرتی تھیں اور جو عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر نیست و نابود ہوگئیں۔ 
 کیونکہ کفار کے طبعًا سرکشی اور ہٹ دھرمی کی بناء پر اس قسم کے موضوع کی اپنے بارے میں درخواست کرتے تھے جو قبل کی دوآیات میں آئی ہے ، لیکن قرآن انھیں تنبیہ کرتا ہے کہ وہ ہرگز اس قسم کا تقاضا نہ کریں کیونکہ اگر عذاب نازل ہوا تو کوئی چیز تمارےلیے با قی نہیں رہے گی۔ 
 آخرکار اس سورہ (سوره سجدہ) کی آخری آیت کے ساتھ ناطق اورمعنی خیز تہدید کے ذریعہ سورہ کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے۔ اے پیغمبر! اب جبکہ ایسا ہے۔ ان سے منہ پھیرلو اور تم منتظر رہیں": ( فاعرض عنهم وانتظر انهم منتظرون)۔ 
 اب جبکہ نہ تو بشارت انھیں اثر کرتی ہے اور نہ انذار (ڈرانا) اور نہ ہی وہ اہل  منطق و استدلال ہیں تاکہ وسیع عالم خلقت میں آثار الٰہی کے مشاہدہ کرنے سے اسے پہنچائیں اور اس کے غیرکی پرستش ترک کردیں ۔ اور نہ ہی بیدار ضمیر رکھتے ہیں کہ اپنی جان کے اندر سے بلند ہونے والے نغمہ توحید پر کان دھريں، لہذا ان سے روگردانی کرکے منہ پھیر لیجئے اور اپنے خدا کی رحمت کے منتظر رہیئے اور وہ اس کے عذاب کے منتظررہیں ۔ کیونکہ وہ صرف عذاب کے لائق ہیں۔ 
 پروردگار! ہمیں ایسے لوگوں میں سے قرار دے جو حق کی اولین نشانی کو دیکھ کراس کے سامنے جھک جاتے اور ایمان لے آتے ہیں۔ 
 بارالٰہا! تکبر ، غرور، سرکشی اور ہٹ دھرمی کی روح ہم سب سے دور فرما۔ 
 خداوند ! کفرو استکبار اور استعمار کے لشکروں پر شکر اسلام کو مکمل کامیابی جلد سے جلد عطا فرما ۔ 
     سورہ سجدہ کا اختتام 
     3محرم الحرام  1404ھ - 18 مہر ماه 1362