خدائی رہبروں کا صبر و استقامت
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ۲۳وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ۲۴إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۲۵
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو بھی کتاب عطا کی ہے لہذا آپ کو اپنے قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک نہیں ہونا چاہئے اور ہم نے کتاب هموسٰی علیھ السّلام کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت قرار دیا ہے. اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے. بیشک آپ کا پروردگار ان کے درمیان روزِ قیامت ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ آپس میں اختلاف رکھتے تھے.
ایک نکتہ
خدائی رہبروں کا صبر و استقامت
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ زیر بحث آیات میں پیشواؤں اور ائمہ کے لیے دو شرائط ذکر ہوئی ہیں، پہلی صبر و استقامت اور دوسری آیات الٰہی پر ایمان و یقین۔
صبر و استقامت کی بہت زیادہ شاخیں ہیں ۔ یہ کبھی تو ان مصائب کے مقابلہ میں ہوتا ہے جو خود انسان کو درپیش ہوتے ہیں۔
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تفسیرالمیزان جلد اول ص 275
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کبھی ان رنج وغم اور تکالیف کے مقابلہ میں ہوتا ہے جو انسان کے دوست اور احباب اس کو دیتے ہیں۔
اور کبھی اس کے مقدس مقامات کے بارے میں طعن و تشنیع کرنے کے مقابلے میں ہوتا ہے۔
کبھی کج فکر اور کج اندیش لوگوں کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے۔
کبھی بدخواہوں کی طرف سے ۔
کبھی جاہلوں اور نادانوں کی طرف سے۔
اورکبھی آگاہ اور سمجھدار بدخواہوں کی طرف سے !
خلاصہ یہ کہ آگاہ اور دوراندیش رہبر کو ان تمام مشکلات وغیرہ کے مقابلہ میں استقامت اختیار کرنا چاہیئے ، کبھی بھی میدان حوادث سے نہ ہٹے ، بےتابی اورجزع اور فزح نہ کرے ، زمام اختیار ہاتھ سے نہ جانے دے ، مایوس نہ ہوا ، اصظراب اور پیشمانی کا مظاہرہ نہ کرے تاکہ وہ اپنے عظیم مقصد تک پہنچ جائے۔
اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ اسلام سے ایک جامع حدیث نقل ہوئی ہے جس کا ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا:
"جو شخص صبر کرتا ہے تو اس کا یہ صبر تھوڑی سی مدت کے لیے ہوتا ہے (اس کے بعد کامیابی ہوتی ہے) اور ہرشخص بےتابی کرتا ہے ، تو اس کی بے تابی بھی مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے (آخر کار شکست ہے) ۔
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا،
"تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروشکیبائی کا مظاہرہ کرو ، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت محمدؐ کو مبعوث کیا اور انھیں صبر وامدارات کا حکم دیا"۔
اور فرمایا:
جو کچھ وہ کہتے ہیں اس کے مقابلہ میں صبراختیا کرو اور ضرورت کی صورت میں ان سے الگ ہوجاؤ۔ لیکن اس حد تک بھی جدائی ٹھیک نہیں کہ وہ حق کی طرف دعوت دینے سے ہی روک دے"۔
"نیکیوں کا ہتھیارلے کر برائیوں کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاؤ۔ کیونکہ اس موقع پرجولوگ تمھارے ساتھ عداوت اور دشمنی کہتے ہیں ضمیمی اور مخلص دوست کی مانند ہوجائیں اور اس مقام پر سوائے صابرین اور ان لوگوں کے اور کوئی نہیں پہنچ سکتا جن کے پاس ایمان کاایک عظیم حصہ ہے۔
پھرفرمایا:
پیغمبرؐ نے صبروشکیبائی اختیارکی ، یہاں تک کہ لوگوں نے ان پر انواع و اقسام کی تہمت کے تیر چلائے (انھیں مجواں اور ساحر کہا ، شاعر کہہ کر پکارا اور انھیں دعوت نبوت میں جھٹلایا) ان کی باتیں سن کر پیغمبر تنگ آگئے ، خدا نے یہ ارشاد ان پر نازل کیا۔" ہم جانتے ہیں کہ تمھاراسینہ ان کی باتوں سے تنگ ہو جاتا ہے لیکن تم اپنے پروردگار کی تسبیح وحمد بجالاؤ اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ"۔ (کیونکہ یہی عبادتیں تمھیں آرام و سکون بخشیں گی ۔
دوبارہ انھوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کو متہم کیا تو آنجابؐ غمگین ہوئے تو خدا نے ان پر یہ ارشاد نازل کیا کہ ہم جانتے ہیں انسان کہ ان کی باتیں آپ کو غمگین کرتی ہیں ، لیکن آپ کا جان لیں کہ ان کا مقصد آپ کو غمگین کرنا نہیں بلکہ یہ ظالم توآیات خدا کی تکذیب کرتے ہیں ۔ آپ سے پہلے جو پیغمبر آئے تھے وہ بھی ان کی تکذیب کی آماجگاہ تھے لیکن انھوں نے صبرکیا ۔ انھیں آزار دیا گیا ۔ مگر انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد ونصرت آپہنچی۔ پیغمبر نے پھر بھی صبر کیا۔ یہاں تک کہ وہ حد سے گزر گئے اور خدا کا نام بھی برے الفاظ کے ساتھ زبان پر جاری کیا اور تکذیب کی۔
پیغمبرکرام نے عرض کیا ، خداوندا میں نے اپنے بارے میں ، اپنے خاندان اور عزت و آبرو کے بارے میں صبراختیار کیا۔ لیکن تیرے مقام مقدس کے بارے میں بد دعا کی ، جب پر صبر نہیں کرسکتا ۔ پھر بھی خدانے انھیں صبر کا حکم دیا اور فرمایا" وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پرصبر کرو"۔
پھر مزید کہتا ہے کہ اس کے بعد وہ پیغمبرتمام حالات میں اور تمام مشکلات کے مقابلہ میں صابر وشکیباتھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انھیں ابشارت دیتا ہے کہ تمھارے خاندان میں ائمہ اور پشوا پیدا ہوں گے اور ان آئمہ کوبھی صبر کی وصیت کی ۔ اس موقع کے لیے پیغمبرؐ نے فرمایا:
"الصبر من الایمان كالرأس من الجسد"
صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے
اور آخرکار آپ کا یہی صبر استقلال مشرکین پر آپؐ کی کامیابی کا سبب بنا اور ان ستم گاروں سے انتقام لینے کا حکم صادر ہوا جو قابل ہدایت نہیں تھے۔ اور ان کی زندگی کا روز نامچہ پیغمبراوران کے رفقائے کار کے ہاتھوں لپیٹ دیاگیا۔ یہ تودنیامیں ان کے صبر کی جزا تھی ، لیکن آخرت کے لیے ذخیرہ کیا گیا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے۔
پھر امام صادقؑ فرماتے ہیں:
"فمن صبرو احتسب لم يخرج من الدنيا حتٰی ایقراللہ له عینًافی اعدنه مع ما
يدخرله في الآخرة"
"جوشخص صبرکرے اوراس صبر کو خدا کے کھاتے میں ڈال دے وہ دنیا سے اس وقت تک خارج نہیں ہوگا کب
تک خدا وند عالم اس کی آنکھوں کو اس کے دشمنوں کی شکست کے ذریعہ ٹھنڈا نہیں کردیتا۔ لیکن آخرت کا وہ اجراس کے علاوہ ہے جو اس کے لیے ذخیرہ کیاجاچکا ہے ۔"
۔-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 "اصول کافی" جلد 2 ص 73 باب الصبر (خلاصہ کے ساتھ) ۔