چند ایک نکات
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم ۱تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ۳اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ۴يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ۵
الۤمۤ. بیشک اس کتاب کی تنزیل عالمین کے پروردگار کی طرف سے ہے. کیا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ رسول کا افترائ ہے, ہرگز نہیں یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کی طرف سے آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا رسول علیھ السّلامنہیں آیا ہے کہ شاید یہ ہدایت یافتہ ہوجائیں. اللرُہی وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور اس کی تمام درمیانی مخلوقات کو چھ دن کے اندر پیدا کیا ہے اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا ہے اور تمہارے لئے اس کو چھوڑ کر کوئی سرپرست یا سفارش کرنے والا نہیں ہے کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے. وہ خدا آسمان سے زمین تک کے اُمور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر اس کی بارگاہ میں اس دن پیش ہوگا جس کی مقدار تمہارے حساب کے مطابق ہزار سال کے برابر ہوگی.
چند ایک نکات
"يدبرالامر" کی آیت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ہمارے زمانے کے کچھ خود ساختہ مسلک کے پیروکاروں نے اپنے مسلک کی توجیہ کے لیے اوپر والی آیت کو دستاویز قرار دیتے ہوئے عوام الناس کو فریب دینے اور مغالط میں ڈالنے کے لئے اس آیت کو اپنے مقصد منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان کے اکثر مبلغین سے جب انسان رو برو ہوتا ہے ، منجملہ ان دلائل کے کہ جس کا فورًا ڈوبتے کی طرح تنکے کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں یہی آیت ہے (اید بر الامر من السماء الى الارض ......)وہ کہتے ہیں۔
"امر" سے مراد اس آیت میں "دین اور مذہب" ہے اور "تدبیر" دین کے بھیچتے کے معنی میں ہے اور "عروج" دین کو اٹھانے اور نسخ کرنے کے معنی میں ہے، اور اس حساب سے کوئی مذہب ایک ہزار سال سے زیادہ زنده نہیں رہ سکتا۔ لہذا ہزارسال کے بعد اسے اپنی جگہ دوسرے مذہب کو دے دینی چاہیئے ۔ اسی بناء پر وہ کہتے ہیں "ہم قران کو قبول کرتے ہیں" لیکن اسی قران کے مطابق ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد دوسرا مذہب آۓ گا !
اب ہم چاہتے ہیں کہ ایک غیر جانب دار فرد کے عنوان سے مذکورہ آیت کا صحیح طریقے پر تجزیہ و تحلیل کریں اور دیکھیں کہ جس چیز کا یہ لوگ دعوٰے کرتے ہیں . آیا آیت کابھی اس چیز کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟ اس بات سے قطع نظرکہ یہ معنی آیت کے مفہوم سے اس قدر دور ہے کہ خالی الذہین پڑھنے والے کی فکرو ذہن میں آبھی نہیں سکتا۔
خوب غور و خوض کے بعد تم دیکھتے ہیں کہ جس چیز پروہ آیت کو مطابقت دینا چاہتے ہیں ، نہ صرف یہ کہ آیت کے مفہوم کے ساتھ سازگار نہیں ، بلکہ بہت سی جہات سے واضح اشکالات سے بھی دو چارہے۔
(1) لفظ "امر" کو دین و مذہب کے معنی میں لینا نہ صرف یہ کہ اس پر کوئی دلیل نہیں بلکہ قرآن کی دوسری آیات بھی اس کی نفی کرتی ہیں ۔ کیونکہ دوسری آیات میں "امر" فرمان ، آفرنیش وخلقت کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
"انما امره اذا اراد شيئا ان یقول له كن فيكون"۔ (سورہ یٰسین آیت 82)۔
"اس کا امر تو بس یہ ہے کہ میں وقت کسی چیز کا ارادہ کرے تو کہتاہے ہو جا ، تو وہ فورًا ہوجاتی ہے"۔
"اس آیت میں اور "سورہ قمر" کی آیت 50 اور "سورہ مومنون" کی آیت 27: "سوره اعراف" کی آیت 54 : "سوره ابراھیم" کی آیت 32 اور سوره نحل آیت 12 "سوره روم" آیت 25، اور "سوره جاثیہ آیت 12 اور بہت سی دوسری آیات میں "امر" امر تکوین کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، نہ کہ دین و مذہب کی تشریح کے معنی میں۔
بنیادی طور پر جہان آسمان و زمین اور آفرینش وخلقت وغیرہ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ، امراس معنی میں آتا ہے، (غور کیجئے)۔
(2) لفظ "تدبیر" بھی خلقت وآفرینش اور کائنات واضح و کیفیت کو سنوارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ کہ مذہب نازل کرنے کے معنی میں ، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قران کی دوسری آیات میں (آیات ایک دوسرے کی تـفسیر کرتی ہیں دین و مذہب کے بارے میں بالکل لفظ تدبیر استعمال نہیں ہوا، بلکہ لفظ "تشریع" یا "تنزیل" یا "انزال" استعمال ہواہے:
"شرع لكم من الذين ماوصی بد نوحًا"۔ (شورٰی ۔۔۔۔ 3)
شریعت کا آغاز اس چیز سے ہوا ، جس کی نوح کو وصیت کی تھی"۔
"ومن لم یحكم بما أنزل الله فاولٰئك هم الكافرون "۔
"جوشخص خدا کے نازل کروہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تووہ کافرہے"۔ ( مائده ۔۔۔۔ 44)۔
"نزل عليك الكتاب بالحق مصدقًا لما بین یدیہ"۔ آل عمران ۔۔۔۔۔ 3)۔
"برحق قرآن کو تجھ پر نازل کیا ہے، جو پہلے کی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے"۔
(3) محل بحث کی آیت سے پہلے اور بعد کی آیت عالم کی خلقت و آفرنیش سے متعلق ہے، نہ کہ تشريع اویان سے۔ کیونکہ قبل والی آیت میں چھ دن (دوسرے لفظوں میں چھ دور) میں آسمان و زمین کی خلقت کے بارے میں گفتگوتھی اوربعد والی آیات میں خلقت انسان کا متعلق گفتگوتھی۔
کہے بغیر واضح ہے کہ آیات کی مناسبت تقاضاکرتی ہے کہ یہ آیت بھی جوآیآت "خلقت" کے درمیان واقع ہوئی ہے، مسئلہ خلقت اورآرفینش کے انتظامی امور سے مربوط ہو۔
یہی وجہ ہے کہ جب سیکڑوں سال پہلے کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں گوناگوں احتمالات کے باوجود کسی نے یہ احتمال نہیں دیا کہ یہ آیت تشریح اویان سے مربوط ہے۔ مثلًا تفسیر"مجمع البیان" میں جو مشہور ترین اسلامی تفسیر ہے اور جس کے مؤتف کا تعلق سنہ چھ ہجری سے ہے اوپر والی آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے باوجود کسی بھی مسلم دانشور کا یہ قول نقل نہیں کیا کہ اس آیت کا تعلق تشریع ادیان سے ہے۔
(4) لفظ "عروج" "صعود کرنے اور اوپرجانے" کے معنی میں ہے نہ کہ نسخ ادیان اور ان کے زائل ہونے کے معنی میں ، اور قرآن میں کسی جگہ بھی" عروج" نسخ کے معنی میں نظر نہیں آیا یہ لفظ قرآن کی پانچ آیات میں ذکر ہوا ہے ، لیکن کہیں بھی اس کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ادیان کے بارے میں وہی لفظ"نسخ" یا "تبدیل" وغیرہ استعمال ہوئے ہیں۔
بنیادی طور پرادیان اور کتب آسمانی کوئی ایسی چیز نہیں جومثلًا ارواح لبشر کی طرح اختتام زندگی کے بعد فرشتوں کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرجائیں ، بلکہ نسخ شدہ دین اسی زمین پر موجود ہیں ، ان کے صرف چند ایک مسائل منسوخ ہوئے ہیں ، جبکہ ان کے اصول اپنی قوت کے ساتھ باقی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ لفظ "عروج" باوجود یکہ قران مجید میں کسی جگہ بھی نسخ اویان کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ، اصولی طور پرنسخ ادیان کے مفہوم کے ساتھ سازگار بھی نہیں ہے ، کیونکہ منسوخ ادیان آسمان کی طرف عروج نہیں کرتے۔
(5) ان سب کے علاوہ یہ معنی واقعیت عینی کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ گذشتہ ادیان کا ایک دوسرے سے فاصلہ کہیں پر بھی ایک ہزار سال نہیں تھا۔
مثلًاحضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی کے ظہور کے درمیان کا فاصلہ 1500 سال سے زیادہ تھا اور حضرت عیسٰی اور پیغمبراسلام کے لاہور کا فاصلہ 600 سو سال سے کم تھا۔
جیساکہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں، ان لوگوں کے قول کے مطابق ان دونوں میں سے کوئی فاصلہ میں ہزار سال کا نہیں بلکہ زیادہ بھی ہے۔
ایک اولو العزم نبی اور مخصوص شریعت کے بانی حضرت "نوحؑ" کا اولوالعزم شریعت کے دوسرے بانی اوربت شکن ہیرو حضرت ابراہیمؑ کے درمیان 1400 سال سے زیاده فاصلہ ہے اور اسی طرح حضرت "ابراہیم" اور حضرت "موسٰی" کے درمیان فاصلہ 500 سال سے کم لکھا ہے۔
اس موضوع سے ہم پر تیجہ حاصل کرتے ہیں کہ نمونہ کے طور پر بھی گذشتہ مذاہب و ادیان کا ایک دوسرے کےساتھ کا فاصلہ ایک ہزار سال نہیں تھا۔ "تو خود حدیث مفصل بخوان ازیں مجمل"۔
(6) ان سب باتوں سے قطع نظر سید علی محمد باب کے جس دعوٰے کے لیے یہ سب لوگ ناروا توجیہات کے متحمل بوئے ہیں ، اس حساب سے بالکل سازگار نہیں ہے ، کیونکہ خود انھیں کے اعتراف کے مطابق اس کے دعوٰے کی ابتداء 1260 هجری قمری میں تھی ۔ اور اس بات کے پیش نظر کہ پیغمبر اسلام کی دعوت کی ابتداء ہجرت سے 13 سال قبل تھی تو ان دونوں کے درمیان فاصلہ 1273 سال بنتاہے ، یعنی ہزار سال سے 373 سال زائد بنتے ہیں ۔ اب وہ خود ہی بتائیں کہ ہم کس نقشے کے تحت ان 273 سالوں کو ادھر اُدھر کریں ؟ اور کس طرح اتنے بڑے عدد کو نظرانداز کردیں ؟
(7) اور فرض کیجئے کہ تم ان چھ اعتراضات کو بھی ایک طرف کیے دیتے ہیں اور اس قدر واضح اور روشن تجزیات کوبهی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور صرف عقل و خرد کو فیصلہ کے لیے بلاتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ قرآن کے بجا ئے بتاتے ہیں کہ نبوت کے نئے دعوے داورں کے سامنے آنے والے لوگوں کی ذمہ داری کو واضح کریں اور کہیں کہ " ہزارسال گزرنے کے بعد نئے پیغمبر کے انتظارمیں رہو"۔ تو کیا اس کا یہی راستہ تھا ، جیسا مذکورہ آیت میں ذکر ہوا ہے ، مطلب کو بیان کریں اور بارہ تیرہ صدیوں تک کوئی عالم اور غیر عالم اس آیت کے معنی سے ذره برابربھی مطلع نہ ہوسکے اور 1373 سال گزرنے کے بعد صرف ایک گروہ "کشف جدید" کے عنوان جو صرف اور صرف اس کے نزدیک ہی قابل قبول ہے ، اس سے پردہ اٹھائے۔
کیا زیادہ عقل مندی کی بات نہیں تھی کہ اس جملہ کی جگہ پر یوں کہا جاتا۔ "تمہیں میں بشارت دیتا ہوں کہ ایک ہزارسال کے بعد ایک پیغمبراس نام کا ظہور کرے گا"۔
جیسا کہ حضرت عیسٰی نے پیغمبراسلامؐ کے متعلق کہا :
"ومبشرًا برسول يأتي من بعد اسمه احمد"
(سورۂ صف آیه ۔۔۔۔ 6)
بہرحال شاید یہ اس حد تک جتنا ہم نے بحث کی ہے ، بحث کا محتاج نہ ہوتا، لیکن مسلمانوں کی نوجوان نسل عالمی استعمار کے ہتھکنڈوں اور اسلام کے مورچوں کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے والے ساختہ مسالک کی چالوں سے خبردار کرنے کے لیے قدرے تفصیلی گفتگو کی تاکہ وہ ان کی اس منطق کے صرف ایک گوشہ سے باخبرہوجائیں اور باقی کا وہ خود حساب کرلیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ