Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ چلنے پھرنے کے آداب

										
																									
								

Ayat No : 16-19

: لقمان

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ۱۶يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ۱۷وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ۱۸وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ۱۹

Translation

بیٹا نیکی یا بدی ایک رائی کے دانہ کے برابر ہو اور کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں پر ہو یا زمینوں کی گہرائیوں میں ہو تو خدا روزِ قیامت ضرور اسے سامنے لائے گا کہ وہ لطیف بھی ہے اور باخبر بھی ہے. بیٹا نماز قائم کرو, نیکیوں کا حکم دو, برائیوں سے منع کرو, اور اس راہ میں جو مصیبت پڑے اس پر صبر کرو کہ یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے. اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر منہ نہ پُھلا لینا اور زمین میں غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کو پسند نہیں کرتا ہے. اور اپنی رفتار میں میانہ روی سے کام لینا اور اپنی آواز کو دھیما رکھنا کہ سب سے بدتر آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے (جو بلاسبب بھونڈے انداز سے چیختا رہتا ہے.

Tafseer

									یہ ٹھیک ہے کہ چلنا پھر نا ایک عام اور سادہ سامسئلہ لیکن یہی سادہ مسئلہ انسان کے اندرونی حالات اور اخلاق واطوار اور بسا اوقات اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے کیونکہ پہلے بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان کے عادت واطواراس کے اعمال کے اندرمنعکس ہوتے ہیں اور کبھی ایک چھوٹا سا معمولی عمل بھی اس کی گہری عادات کی غمازی کرتاہے۔ 
اور چونکہ اسلام زندگی کی تمام جہات کو توجہ کا مرکز قرار دیتا ہے لہٰذا اس سلسلہ میں اس نے کسی بھی چیز کو فرو گزاشت نہیں کیا۔ ایک حدیث میں رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ سلّم سے مروی ہے: 
”من مشی علی الا رض اختیالا لعنہ الارض، ومن تحتھا، ومن فوقھا!“ 
”جوشخص عزوروتکبّر کے ساتھ زمین پر چلتاہے تو زمین اور زمین کے اندر کی اور اس کے اوپر کی چیزیں سب اس پر لعنت کرتی ہیں۔ “ (۱) 
پھر ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے روایت ہے: 
”نھی ان خیتال الرجل فی مشیہ وقال من لبس ثوبًا فاختال فیہ خسف اللہ بہ من شفیرجھنم وکان قرین قارون لانّہ اوّل من اختال“۔
پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے مغرورانہ اور متکبرانہ انداز میں چلنے سے روکا ہے اور فرمایا جو شخص لباس پہنے اور اس کے ساتھ تکبر دکھائے تو خدا اوند عالم اسے جہنم کے کنارے سے زمین کی تہہ میں بھیجے گا اور وہ قارون کا مقرّب اور ساتھی ہوگا۔ کیونکہ قارون پہلا شخص تھا جس نے کبروغرور کی بنیاد رکھی (۲) 
نیز امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں ہم پڑھتے ہیں آپ(علیهم السلام) نے فرمایا: 
خدا نے ایمان کو انسان کے اعضاء وجوارح پر واجب کیا اور ان کے درمیان اسے تقسیم کیا، منجملہ ان کے انسان کے پاؤں پر واجب کیا ہے کہ گناہ اور معصیّت کی طرف نہ جائیں بلکہ رضائے خدا کی راہ میں اٹھیں، اسی لیے قرآن فرماتاہے: ”زمین میں تکبرّ سے نہ چلو“ نیز فرماتاہے: ”چلنے میں اعتدال کی راہ کو پیش نظر رکھو“ ۔ (۳) 
ایک دوسری روایت میں یہ ماجراپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل ہوا ہے کہ آپ ایک کو چہ سے گزر فرمارہے تھے لوگوں کو دیکھاکہ ایک دیوانے کے گرد جمع ہیں اور اس کی طرف دیکھ رہے ہیں فرمایا: 
علی ما اجتمع ھٰوٴلآء ”یہ لوگ کیوں جمع ہیں؟“ عرض کیا گیا کہ علی المجنون یصرع”ایک دیوانے کے لیے جو اعصابی حملہ کا شکار ہے!“

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: 
”ماھٰذابمجنون الا اٴخبر کم بمجنون حق المجنون یہ تو دیوانہ نہیں ہے! تم چاہتے ہو کہ واقعی مجنوں کا تم سے تعارف کراؤں؟ 
انہوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ !!تو آپ نے فرمایا: 
”انّ المجنون: المتبختر فی مشیہ، الناظر فی عطفیہ، المحرک جنبیہ بمنکبیہ فذالک المجنون وھٰذا المبتلی“
”حقیقی مجنون تووہ ہے جو غرور سے شانے جھٹک کر چلتا ہے، ہمیشہ اپنے پہلوؤں کی طرف دیکھتا ہے، اپنے بازوؤں کو اپنے کندھوں کے ساتھ ہلاتا ہے۔ (اور کبروغرور اس کے سارے وجودسے ٹپکتا ہے) ایسا شخص واقعی دیوانہ ہے جسے تم دیکھ رہے ہو، یہ تو بیمار ہے۔ (4)
۱۔ ثواب الاعمال اور امالی (بحوالہ نور الثقلین، ج۴، ص۲۰۷)
۲۔ ثواب الاعمال وامالی صدوقۺ (بحوالہٴ تفسیر نور الثقلین، ج۴، ص۲۰۷.
۳۔اصول کافی، ج۲، ص۲۸ (باب الایمان مبثوث لجوارح البدن کلھا) ۔
4۔ بحارالانوار، ج۷۶، ص۵۷.