۲۔ حضر ت ابراہیم (ع) پرخدا کی عظیم برکا ت
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۲۴وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ ۲۵فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۲۶وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ۲۷
تو ان کی قوم کا جواب اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ انہیں قتل کردو یا آگ میں جلا دو ...._ تو پروردگار نے انہیں اس آگ سے نجات دلادی بیشک اس میں بھی صاحبان هایمان کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں. اور ابراہیم نے کہا کہ تم نے صرف زندگانی دنیا کی محبتوں کو برقرار رکھنے کے لئے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو اختیار کرلیا ہے اس کے بعد روز هقیامت تم میں سے ہر ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا جب کہ تم سب کا انجام جہّنم ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا. پھر لوط ابراہیم پر ایمان لے آئے اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہا ہوں کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب حکمت ہے. اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا کی اور پھر ان کی ذریت میں کتاب اور نبوت قرار دی اور انہیں دنیا میں بھی ان کا اجر عطا کیا اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیک کردار لوگوں میں ہوگا.
بعض مفسرین نے کہاہے کہاس آیت میں ایک لطیف نکتہ موجود ہے او ر وہ یہ ہے کہ :
خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام تکلیف و ہ حالات کوان کی ضد میں تبدیل کردیا چنا نچہ : ۔
بابل کے بت پرست یہ چاہتے تھے کہ انھیں آگ میں جلادیں . مگر وہ آگ ان کے لیے گلزار ہو گئی ۔
وہ مشرک یہ چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کاکوئی رفیق نہ ہو اور وہ تنہا رہیں . مگر خدا نے انھیں ایسی جمعیت اورکثر ت بخشی کہ دنیا ان کی نسل سے بھر گئی ۔
ان کے بعض نزدیک ترین رشتہ دار گم راہ اور بت پرست تھے . ان میں سے ” آزر “ بھی تھا .خدانے اس کے عوض انھیں ایسے فرزند عطاکیے جو خود ہدایت یافتہ او ردوسروں کے لیے ہادی بھی تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ا پنے ابتدائے حال میں مال ودولت نہ رکھتے تھے مگر اللہ نے انھیں عظیم مال وجاہ عطاکیا ۔
حضرت براہیم علیہ السلام شروع شروع میں ایک گمنام انسان تھے . یہاں تک کہ بابل کے مشرک جب ان کاذکر کرتے تھے توکہتے تھے :
سمعنا فتی یذ کرھم یقال لہ ابراھیم
ہم نے سنا ہے کہ ایک نوجوان بتوں کی باتیں کرتاہے . لوگ اس کانام ابراہیم بتاتے ہیں ۔
مگرخدانے ان کانام ایسا روشن کیااور انھیں ایسی شہر ت بخشی کہ انھیں سردار انبیاء اور سردار مرسلین کہاجاتاہے (1) ۔
1۔ تفسیر فخردین رازی ،کچھ فرق کے ساتھ ۔