Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔عظیم ترین افتخار

										
																									
								

Ayat No : 24-27

: العَنکبوت

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۲۴وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ ۲۵فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۲۶وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ۲۷

Translation

تو ان کی قوم کا جواب اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ انہیں قتل کردو یا آگ میں جلا دو ...._ تو پروردگار نے انہیں اس آگ سے نجات دلادی بیشک اس میں بھی صاحبان هایمان کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں. اور ابراہیم نے کہا کہ تم نے صرف زندگانی دنیا کی محبتوں کو برقرار رکھنے کے لئے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو اختیار کرلیا ہے اس کے بعد روز هقیامت تم میں سے ہر ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا جب کہ تم سب کا انجام جہّنم ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا. پھر لوط ابراہیم پر ایمان لے آئے اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہا ہوں کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب حکمت ہے. اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب جیسی اولاد عطا کی اور پھر ان کی ذریت میں کتاب اور نبوت قرار دی اور انہیں دنیا میں بھی ان کا اجر عطا کیا اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیک کردار لوگوں میں ہوگا.

Tafseer

									جیساکہ قرآن کی بہت سی آیات سے ثابت ہو تا ہے . کسی انسان کاصالحین میں شمار ہونااس کے لیے منتہا ئے افتخار ہے . اس لیے پیغمبر وں میں سے بہت سے خدا اسے تمناکرتے تھے کہ وہ انھیں صالحین میں جگہ دے ۔
حضر یوسف علیہ السلام ظاہر شان و شوکت کے انتہائی مدارج پر پہنچنے کے بعدخدا سے یہ دعا کرتے تھے : 
( توفنی مسلما والمقنی بالصالحین ) ۔
اے خدا تو مجھے اس حالت میں موت دے کہ میں مسلمان ہوں اور بعد مرگ تومجھے صالحین سے ملحق کردے ۔
حضرت سلمان علیہ السلام بھی اپنی پوری حشمت اور جاہ وجلال کے باوجو د خداسے یہ دعا کرتے ہیں : 
ادخلنی برحمتک فی عبادک الصالین 
اے خدا ! تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں داخل کر . ( نمل . آیت. ۱۹) ۔
حضرت شعیت علیہ السلام کا جب موسی سے عہدو پیمان ہوتاہے توفرماتے ہیں : 
ستجدنی ان شاء اللہ من الصالحین 
ان شاء اللہ تومجھے صالحین سے پائے گا ( قصص .آ یت ۲۷ ) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی خداسے یہی دعا کرتے ہیں کہ ان کا شمار زمرہٴ صالحین میں ہو : 
رب ھب لی حکما والحقنی بالصالحین ( شعراء . آیت . ۸۳ ) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعابھی کرتے ہیں کہ ان کی اولاد صالح ہو : 
رب ھب لی من الصا لحین (صافات . آیت . ۱۰۰ ) ۔
قرآن شریف کی بہت سی آیات میں یہ مضمون ملتا ہے کہ جب خدا پیغمبران بزرگ کی مدح کرتاہے توان کی تعریف میں کہتا ہے کہ وہ صالحین میں سے ہیں ۔
ان کل آیات کے مطالعے سے یہ حاصل ہوتاہے کہ انسان کاعالی ترین مربہ کمال صالح ہونا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ” صالح ہونا “ کیامعنی رکھتاہے ؟ 
اس کے معنی ہیں : اعتقاد وایمان کے لحاظ سے عظمت و پاکیز گی .اسی طرح عمل اور گفتار و اخلاق کے لحاظ سے بھی مراد یہ ہے کہ مرد صالح وہ ہے کہ جو اپنی فکر ،کردار اور گفتار غرض ہرطرح سے نیک ہو ۔
”صالح “ کی ضد ”فاسد “ ہے . یہ واضح ہے کہ زمین پرفساد کرنے میں تمام ظلم و ستم اورتمام بداعمال شامل ہیں . قرآن مجید میں کلمہ ” صلاح “ ” فساد “ کے مقابلے میں استعمال ہواہے .اورکبھی ” سیئة “ کے مقابلہ میں بھی آیاہے . جن کے معنی ہیں گنا ہ اوربدی ۔