Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔کلام اللہ حادث ہے یا قدیم

										
																									
								

Ayat No : 1-6

: الشعراء

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ طسم ۱تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ۲لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ۳إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ ۴وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنَ الرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ ۵فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ۶

Translation

طسم ۤ. یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں. کیا آپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں. اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساتھ جھک جاتیں. لیکن ان کی طرف جب بھی خدا کی طرف سے کوئی نیا ذکر آتاہے تو یہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں. یقینا انہوں نے تکذیب کی ہے تو عنقریب ان کے پاس اس بات کی خبریں آجائیں گی جس کا یہ لوگ مذاق اڑا رہے تھے.

Tafseer

									ہم جانتے ہیں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ” کلام اللہ “ کے حادث یا قدیم ہونے کے بارے میں لمبی چوڑی بحث عرصہ داراز تک چلتی رہی اور اس کی صدائے باز گشت کتب تفاسیر میں بھی سنائی دینے لگی اورکئی ایک مفسرین نے منددرجہ بالا آیت میں موجود لفظ” محدث“ کے ذریعے اس کے حادث ہونے پر استدلال قائم کیا ہے ۔
لیکن جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ اس بحث کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے بنی امیہ اور بنی عباس کے خود سرزمامدارانِ حکومت نے اپنی مطلق العنان حکومتوں کو دوام بخشنے کے لئے اس قسم کی بحثوں کو ڈھونگ رچا یا تھا تاکہ اس طرح سے و ہ مسلمان لوگوں کے افکار کو اہم ترین اسلامی مسائل پر غور و خوض کرنے سے منحرف کردیں اور لوگوں کو حکومت کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے انہوں نے یہ مسائل چھیڑے ہی اس لئے تھے کہ علمائے اسلام ایسے مسائل میں الجھے رہیں اور ان کی خود سر اور مطلق العنان حکومت چار دن اور چل جائے ۔
اگر ”کلام الہٰی “ سے مراد اس کے موضوع اور مطالب ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ازل ہی سے علم الٰہی میں تھے اور خدا ان سب سے واقف تھا اس لحاظ سے قدیم ہے اور اگر اس سے مراد وحی کا نزول اور قرآن کے حروف اور کلمات ہیں تو مسلم ہے کہ حادث ہیں ۔بنابریں کلام الٰہی پہلی صورت میں قدیم اور دوسری صورت میں حادث ہے اور اس میں نہ توکسی کو شک و شبہ ہے اور نہ ہی مقام ِ بحث ہے ۔
اسی لئے عالم ِ اسلام خا ص کر علماء اور دانشورطبقہ اس سے خبر دار اور ہوشیار رہیں اور جابر و آمر حکمرانوں کے ذریعے چھیڑی جانے والی کج بحثیوں میں ہر گز نہ الجھیں ۔