۲۔ بخل اور فضول خرچی
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ۶۳وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ۶۴وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ۶۵إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ۶۶وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ۶۷
اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں توسلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں. یہ لوگ راتوں کو اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے رب کی بارگاہ میں کبھی سربسجود رہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں. اور یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب جہنمّ کو پھیر دے کہ اس کا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہے. وہ بدترین منزل اور محل اقامت ہے. اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا راستہ اختیار کرتے ہیں.
اسمیں شک نہیں کہ کہ بخل اور فضول کرچی قرآن اور اسلام کی رو سے ایک نہایت مذموم عمل ہے جس کی آیات اور روایات میں زبردست مذمت کی گئی ہے کیونکہ «اسراف“ ایک فرعونی طرز عمل ہے :قرآن کہتے ہے :
وان فرعون لعال فی الارض و انہ لمن المسرفین(یونس :۸۳)۔
اسراف کرنے والے جہنمی ہیں ، ملاحظہ ہو:
و ان المسرفین ھم اصحاب النار ( موٴمن:۴۳)
آج کل کی تحقیقات سے جو بات ثابت ہو چکی ہے اگر اسے مد نظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین کے وسائل انسانی آبادی کی نسبت اس قدر زیادہ نہیں ہیں کہ انھیں اللّو ں تللّوں میں ضائع کر دیا جائے ۔کیونکہ اس کا اثر دوسرے بے گناہ لوگوں پر پڑتا ہے اور ساتھ ہی اسراف میں عموماًخود خواہی ، خود پسندی اور خلق ِ خدا سے بیگانگی کا عنصر بھی نمایا ں ہوتا ہے ۔
جبکہ بخل اور خسیس پن بھی اسی قدر بری اور ناپسند دیدہ عادت ہے ۔ اصولی طور پر اگر توحیدی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہر چیز کا اصلی مالک خدا وند متعال ہے اور ہم سب صرف اس کی دی ہوئی امانت کے امین ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر ہمیں کسی قسم کے تصرف اور عمل دخل کا کوئی حق حاصل نہیں اور معلوم ہو کہ اس نے نہ تو فضول خرچی کی اجازت دی ہے اور نہ ہی بخل اور کنجوسی کی ۔